Sunday 26 April 2015

جبر آئے کہ اختیار آئے

جبر آئے کہ اختیار آئے 
کچھ تو قابو میں ایک بار آئے
طالبِ گُل ہے دل، نہ خائفِ خار 
اب خزاں آئے یا بہار آئے
یہ ہوا، یہ گھٹا، یہ ابر، یہ تُو 
کس کو توبہ پہ اعتبار آئے
تجھ سے تو یاد تیری بہتر ہے 
تُو نہ آئے وہ بار بار آئے
ہم نے دِل میں خدا کو ڈھونڈ لِیا 
شیخ کعبے سے شرمسار آئے
دل کے دَم سے ہے اِضطراب و سُکوں
دل ہو پہلو میں، تو قرار آئے
الغرض یہ کہ زندگی میں سحرؔ 
جو پڑی سر پہ، وہ گزار آئے

سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)

No comments:

Post a Comment