جبر آئے کہ اختیار آئے
کچھ تو قابو میں ایک بار آئے
طالبِ گُل ہے دل، نہ خائفِ خار
اب خزاں آئے یا بہار آئے
یہ ہوا، یہ گھٹا، یہ ابر، یہ تُو
تجھ سے تو یاد تیری بہتر ہے
تُو نہ آئے وہ بار بار آئے
ہم نے دِل میں خدا کو ڈھونڈ لِیا
شیخ کعبے سے شرمسار آئے
دل کے دَم سے ہے اِضطراب و سُکوں
دل ہو پہلو میں، تو قرار آئے
الغرض یہ کہ زندگی میں سحرؔ
جو پڑی سر پہ، وہ گزار آئے
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
No comments:
Post a Comment