Sunday 26 April 2015

زندگی اس قدر زیان نہ کر

زندگی اس قدر زیان نہ کر
مجھ کو اپنوں سے بدگمان نہ کر
میری پہچان چھین لے مجھ سے
ایسا احسان مہربان نہ کر
تُو نے دیکھا ہے، میں نے جھیلا ہے
حال مجھ سے مِرا بیان نہ کر
تھک گیا ہوں عذابِ ہستی سے
اب مزید اور امتحان نہ کر
تیرے جانے سے کیا بچے گا یہاں
دیکھ سنسان یہ مکان نہ کر
اے مسافت نہ چھوڑ ساتھ مِرا
بیچ رستے میں ناتوان نہ کر
تیر باقی ابھی ہیں ترکش میں
مجھ کو ٹوٹی ہوئی کمان نہ کر
تیری نسبت مِرا حوالہ ہے
توڑ کر مجھ کو بے نشان نہ کر
چھین کر مجھ سے میری تنہائی
اتنا ویراں مِرا جہان نہ کر

تبسم نواز

No comments:

Post a Comment