زندگی اس قدر زیان نہ کر
مجھ کو اپنوں سے بدگمان نہ کر
میری پہچان چھین لے مجھ سے
ایسا احسان مہربان نہ کر
تُو نے دیکھا ہے، میں نے جھیلا ہے
تھک گیا ہوں عذابِ ہستی سے
اب مزید اور امتحان نہ کر
تیرے جانے سے کیا بچے گا یہاں
دیکھ سنسان یہ مکان نہ کر
اے مسافت نہ چھوڑ ساتھ مِرا
بیچ رستے میں ناتوان نہ کر
تیر باقی ابھی ہیں ترکش میں
مجھ کو ٹوٹی ہوئی کمان نہ کر
تیری نسبت مِرا حوالہ ہے
توڑ کر مجھ کو بے نشان نہ کر
چھین کر مجھ سے میری تنہائی
اتنا ویراں مِرا جہان نہ کر
تبسم نواز
No comments:
Post a Comment