Saturday 25 April 2015

وداع یار کا لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں

وداعِ یار کا لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں 
میں خود تو زندہ رہا، وقت مر گیا مجھ میں
سکوتِ شام میں چیخیں سنائی دیتی ہیں
تُو جاتے جاتے عجب شور بھر گیا مجھ میں
وہ پہلے صرف مِری آنکھ میں سمایا تھا
پھر ایک روز رگوں تک اتر گیا مجھ میں
کچھ ایسے دھیان میں چہرہ تِرا طلوع ہوا
غروبِ شام کا منظر نِکھر گیا مجھ میں 
میں اس کی ذات سے مُنکر تھا اور پھر اِک دن
وہ اپنے ہونے کا اعلان کر گیا مجھ میں
کھنڈر سمجھ کے مِری سیر کرنے آیا تھا
گیا تو موسمِ غم پھول دَھر گیا مجھ میں 
گلی میں گونجی خموشی کی چیخ رات کے وقت
تمہاری یاد کا بچہ سا ڈر گیا مجھ میں
بتا، میں کیا کروں دل نام کے اس آنگن کا
تِری امید پہ جو سج سنور گیا مجھ میں
یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے فارسؔ
میں اس میں سِمٹا رہا، وہ بِکھر گیا مجھ میں

رحمان فارس

1 comment: