Monday 20 April 2015

نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح

نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح
میں کب اداس نہیں تھا، مگر نہ اب کی طرح
پھر آج شہرِ تمنا کی رہگزاروں سے
گزر رہے ہیں کئی لوگ روز و شب کی طرح
تجھے تو میں نے بڑی آرزو سے چاہا تھا
یہ کیا کہ چھوڑ چلا تُو بھی اور سب کی طرح
فسردگی ہے مگر وجہِ غم نہیں معلوم
کہ دل پہ بوجھ سا ہے رنجِ بے سبب کی طرح
کِھلے تو اب کے بھی گلشن میں پھول ہیں، لیکن
نہ میرے زخم کی صورت، نہ تِرے لب کی طرح

احمد فراز

No comments:

Post a Comment