Wednesday 29 April 2015

دل میں جو کچھ ہے ابھی اس کی پزیرائی نہیں

دل میں جو کچھ ہے ابھی اس کی پزیرائی نہیں 
ہمہ خوشبو ہوں، پہ کھلنے کی گھڑی آئی نہیں
اَن کہی بات کے سو روپ، کہی بات کا ایک 
کبھی سن وہ بھی جو منت کشِ گویائی نہیں
میری نظروں میں ہے کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح
وہ نمی، جو ابھی شاخوں میں بھی لہرائی نہیں
کیا مناظر تھے کہ جو دیکھتی آنکھوں کو دِکھے 
خواب بُنتا ہوں کہ آسودۂ بینائی نہیں
مصلحت اوڑھ کے دانا سبھی چپ بیٹھے رہے 
کہ یہاں کوئی بھی شائستۂ رسوائی نہیں
دِل بجھا ہو تو گلِ نغمہ بھی نشتر ہے ضیاؔ
شدتِ غم کا علاج انجمن آرائی نہیں

ضیا جالندھری 

No comments:

Post a Comment