Thursday 30 April 2015

کوئی تو ایسا وظیفہ ہو کہ حیرانی ہو

کوئی تو ایسا وظیفہ ہو کہ حیرانی ہو
میں اِدھر ایڑی کو رگڑوں تو اُدھر پانی ہو
دشتِ وحشت میں کھڑے خشک شجر رب راکھا
ہم فقیروں کی دعائیں ہیں کہ آسانی ہو
عشق متروک صحیفہ ہے سو اس کو لے کر
دلِ ویران وہاں چل جہاں ویرانی ہو
اے پسِ پردہ کھڑی روشنی اب پردہ ہٹا
اب مِرا شوق یہ کہتا ہے کہ عریانی ہو
صرف ایک عشق پہ ہی ختم نہیں ہے دنیا
اے میرے ہجر گزیدہ! تیری سلطانی ہو
ایک ہی ہِجر مِری آنکھ سے منسوب نہ کر
میں یہ چاہوں گا مِرے عشق! فراوانی ہو

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment