کوئی تو ایسا وظیفہ ہو کہ حیرانی ہو
میں اِدھر ایڑی کو رگڑوں تو اُدھر پانی ہو
دشتِ وحشت میں کھڑے خشک شجر رب راکھا
ہم فقیروں کی دعائیں ہیں کہ آسانی ہو
عشق متروک صحیفہ ہے سو اس کو لے کر
اے پسِ پردہ کھڑی روشنی اب پردہ ہٹا
اب مِرا شوق یہ کہتا ہے کہ عریانی ہو
صرف ایک عشق پہ ہی ختم نہیں ہے دنیا
اے میرے ہجر گزیدہ! تیری سلطانی ہو
ایک ہی ہِجر مِری آنکھ سے منسوب نہ کر
میں یہ چاہوں گا مِرے عشق! فراوانی ہو
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment