Monday 20 April 2015

مستقل اس میں ٹھکانہ بھی نہیں چاہتے ہم

مستقل اِس میں ٹھکانہ بھی نہیں چاہتے ہم 
اور اِس دشت سے جانا بھی نہیں چاہتے ہم
دیکھ سکتے ہیں کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے 
بات ایسی ہے، بتانا بھی نہیں چاہتے ہم
چاہتے ہیں کہ خریدار بھی دوڑے آئیں 
اور آواز لگانا بھی نہیں چاہتے ہم
جانے والوں کو اجازت بھی نہیں دے سکتے 
اِن چراغوں کو بجھانا بھی نہیں چاہتے ہم
روز آ جاتے ہیں تنہائی سے سر پھوڑنے کو 
اور یہ دیوار گرانا بھی نہیں چاہتے ہم
ذکر بھی کرتے پھرے ہیں ترا گلیوں گلیوں 
روز اِک تازہ فسانہ بھی نہیں چاہتے ہم
نیند بھی لے نہیں سکتے ہیں سکوں سے عامیؔ
خواب کے شہر سے جانا بھی نہیں چاہتے ہم

عمران عامی

No comments:

Post a Comment