Wednesday, 29 April 2015

اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا

اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مُکر جاتے تو اچھا ہوتا
جن کو تعبیر میسر نہیں اس دنیا میں
وہ حسِیں خواب جو مر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو سب پھول نظر آتے ہیں بے مصرف سے
گر تِری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا
ان ستاروں کے چمکنے سے بھی کیا حاصل ہے
ہاں، تِری مانگ کو بھر جاتے تو اچھا ہوتا
ابرِ باراں کے سبھی قطرے گہر ہیں، لیکن
تیری آنکھوں میں اتر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو مارا ہے فقط تیز روی نے اپنی
سانس لینے کو ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کبھی شام سے آگے نہ گئے تیرے لیے
شام سے تا بہ سحر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم نے جو پھول چنے، کام نہ آئے اپنے
تیری دہلیز پہ دھر جاتے تو اچھا ہوتا
کس لیے سعدؔ مقدر کے بھروسے پہ رہے
ہم اگر خود ہی سنور جاتے تو اچھا ہوتا

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment