Wednesday 22 April 2015

غرور جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں

غرورِ جاں کو مِرے یار بیچ دیتے ہیں
قبا کی حِرص میں دستاربیچ دیتے ہیں
یہ لوگ کیا ہیں کہ دوچار خواہشوں کے لیے
تمام عمر کا پندار بیچ دیتے ہیں
جنونِ زینت و آرائشِ مکاں کے لیے
کئی مکیں، در و دیوار بیچ دیتے ہیں
ذرا بھی نِرخ ہو بالا تو تاجرانِ حرم
گلیم و جُبّہ و دستار بیچ دیتے ہیں
بس اتنا فرق ہے یوسفؑ میں اور مجھ میں فرازؔ
کہ اس کو غیر، مجھے یار بیچ دیتے ہیں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment