Thursday, 23 April 2015

میں چیر نہ دوں کیوں دامن کو، میں کیوں نہ گریباں چاک رہوں

میں چِیر نہ دوں کیوں دامن کو، میں کیوں نہ گریباں چاک رہوں
کسی مقتل میں بس جاؤں کہیں، اور ڈال کے سر پہ خاک رہوں
اِک رات عزا خانے میں رہوں، اِک رات کسی مسجد میں پڑوں
اِک رات رہوں میں شرمندہ، اِک رات بہت بے باک رہوں
اِک صبح کسی مندر میں جُھکوں، اِک شام سرِ مے خانہ گِروں
اِک شام زمیں پر رقص کروں، اِک صبح سرِ افلاک رہوں
سرِ چاک رہے مٹی گیلی، مجھے راس نہیں ہے تبدیلی
ہاں خاک تھا میں، ہاں خاک ہوں میں، ہاں خاک رہوں نمناک رہوں
میں دھول کسی کے رَستے کی، میں گَرد کسی کے حُجرے کی
خاشاک تھا میں، خاشاک ہوں میں، خاشاک رہوں اور پاک رہوں
ہر گھونٹ پہ ہو الہام نیا، ہر شام اُچھالوں جام نیا
ہاں رِند تھا میں، ہاں رِند رہوں اور مست مئے لولاک رہوں
مجذوب نہیں، مسرور ہوں میں، مجھے دیکھ نشے میں چُور ہوں میں
میں ہوش و خِرد سے بے گانہ، کہیں دُور پسِ ادراک رہوں
کبھی کیچڑ ہوں تالاب کی میں، کبھی رونق ہوں محراب کی میں
کبھی مٹی اوڑھ کے گھوموں میں، کبھی پہنے ہوئے پوشاک رہوں

عارف امام

No comments:

Post a Comment