اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیے
بول اے ہوائے شہر! کدھر جانا چاہیے
کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم
کوُئے مُراد سے بھی اُدھر جانا چاہیے
وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
اب رفتگاں کی بات نہیں کارواں کی ہے
جس سمت بھی ہو گردِ سفر، جانا چاہیے
کچھ تو ثبوتِ خونِ تمنا کہیں مِلے
ہے دِل تہی تو آنکھ کو بھر جانا چاہیے
یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانتے
یا اپنی خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment