وفا کے نام پہ کوئی منافقت نہ کرے
عدو سےخون پہ میرے مصالحت نہ کرے
امیرِ شہر کی خدمت میں عرض ہے کہ مزید
ستمگروں کے ستم کی مدافعت نہ کرے
دِئیے کے کان میں یہ بات کون ڈال گیا
یہ حکمنامہ بھی جاری ہمارے حق میں ہوا
برائے حق کوئی مُفلس مراسلت نہ کرے
میں اپنے شہر کے حق میں بُرا نہ سوچوں گا
بھلے وہ سوچ سے میری مطابقت نہ کرے
منادی شہر میں ہوتے ہوئے سنی ہے ابھی
جفا کے باب میں کوئی مداخلت نہ کرے
یہ کربلا نے سکھایا ہے، جان کی قیمت پر
یزیدِ وقت سے کوئی مفاہمت نہ کرے
ہم ایسے جبر کے ماحول میں پلے ہیں جہاں
کہ ظلم سہہ کے بھی کوئی مخالفت نہ کرے
ہمارا خون ہے اس عہدِ منصفاں میں معاف
کرے جو قتل تو کوئی ممانعت نہ کرے
تبسم نواز
No comments:
Post a Comment