اب وفا اور جفا کچھ بھی نہیں
اس کا دنیا میں صِلہ کچھ بھی نہیں
دل کو سینے میں چھپا رہنے دو
اس پہ داغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اپنی بربادی کی تفصیل نہ پوچھ
ہم نے تعمیر کیے تاج محل
خواب ٹوٹا تو بچا کچھ بھی نہیں
مارتا جاتا ہے دنیا ساری
اور کہتا ہے ہُوا کچھ بھی نہیں
ہم نے دشمن کو لگایا ہے گلے
یعنی اب خون بہا کچھ بھی نہیں
بے حِسی اپنی کہاں تک پہنچی
اپنا دیکھا یا سنا کچھ بھی نہیں
سعد اللہ شاہ
No comments:
Post a Comment