اب تو شمشیر چلا دینے کا دل چاہتا ہے
شہر کو آگ لگا دینے کا دل چاہتا ہے
واعظا! آج نہ کر صبر کی تلقین ہمیں
تجھ کو منبر سے ہٹا دینے کا دل چاہتا ہے
ہم نے مانا ہمیں روتے ہوئے صدیاں بِیتیں
آج تک ہم نے اٹھائے ہیں جنازے، لیکن
آج طوفان اُٹھا دینے کا دل چاہتا ہے
ایسا مکتب جہاں رائج ہو تعصب کا نِصاب
ایسے مکتب کو گِرا دینے کا دل چاہتا ہے
روشنائی میں ڈبویا ہے قلم آج تلک
اب لہو اس میں مِلا دینے کا دل چاہتا ہے
آج تو ضبط کا یارا ہی نہیں ہے مجھ کو
آج تو عرش ہلا دینے کا دل چاہتا ہے
چپ اگر ظلم پہ ہو تختِ ریاست تو اسے
تختۂ داربنا دینے کا دل چاہتا ہے
عارف امام
No comments:
Post a Comment