Thursday 23 April 2015

اب تو شمشیر چلا دینے کا دل چاہتا ہے

اب تو شمشیر چلا دینے کا دل چاہتا ہے 
شہر کو آگ لگا دینے کا دل چاہتا ہے
واعظا! آج نہ کر صبر کی تلقین ہمیں
تجھ کو منبر سے ہٹا دینے کا دل چاہتا ہے
ہم نے مانا ہمیں روتے ہوئے صدیاں بِیتیں
آج قاتل کو رُلا دینے کا دل چاہتا ہے
آج تک ہم نے اٹھائے ہیں جنازے، لیکن
آج طوفان اُٹھا دینے کا دل چاہتا ہے
ایسا مکتب جہاں رائج ہو تعصب کا نِصاب
ایسے مکتب کو گِرا دینے کا دل چاہتا ہے
روشنائی میں ڈبویا ہے قلم آج تلک
اب لہو اس میں مِلا دینے کا دل چاہتا ہے
آج تو ضبط کا یارا ہی نہیں ہے مجھ کو
آج تو عرش ہلا دینے کا دل چاہتا ہے
چپ اگر ظلم پہ ہو تختِ ریاست تو اسے
تختۂ داربنا دینے کا دل چاہتا ہے

عارف امام

No comments:

Post a Comment