Friday 24 April 2015

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے
آبلہ پا ہیں میرے ساتھ زمانے کب سے
میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں، ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو 
مجھ سے رُخ پھیر لیا، میرے خدا نے کب سے
جاں چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے
وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دِیے گھر میں جلانے کب سے
شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے
آنکھ رونے کو ترستی ہے، تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں، اِحسان جتانے کب سے
جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے
لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے
جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے
جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسؔن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment