جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے
آبلہ پا ہیں میرے ساتھ زمانے کب سے
میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں، ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو
جاں چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے
وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دِیے گھر میں جلانے کب سے
شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے
آنکھ رونے کو ترستی ہے، تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں، اِحسان جتانے کب سے
جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے
لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے
جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے
جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسؔن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment