یہیں کہیں میں کسی گوشۂ جمال میں تھا
میں ایسا ہونے سے پہلے بھی ایسے حال میں تھا
مِری زبان پہ جاری تھی آیتِ وحشت
میں ہِجر آنے سے پہلے یہ کس خیال میں تھا
یہ جسم و روح بہت بعد میں بنے، پہلے
ادھر چراغ کی جانب پلٹ رہے تھے بدن
ادھر وه عشق تھا اور چشمِ برشگال میں تھا
دعائیں دے کے زمیں پر اتر پڑا، لیکن
یہ میری آنکھ کا دریا بڑے اچھال میں تھا
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment