اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو مِلتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانۂ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
اب کوئی کیا میرے قدموں کے نِشاں ڈھونڈے گا
پتھروں میں بھی کبھی آئینے جَڑ جاتے ہیں
سوچ کا آئینہ د ھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں
شِدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دِیے تُ ند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment