Tuesday 28 April 2015

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو مِلتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانۂ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُ ت میں تو گھنے پیڑ بھی جھَڑ جاتے ہیں
اب کوئی کیا میرے قدموں کے نِشاں ڈھونڈے گا
پتھروں میں بھی کبھی آئینے جَڑ جاتے ہیں
سوچ کا آئینہ د ھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں
شِدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دِیے تُ ند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں

محسن بھوپالی

No comments:

Post a Comment