Thursday 30 April 2015

بڑھ گیا بادہ گلگوں کا مزہ آخر شب

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزہ آخرِ شب
اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخرِ شب
منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا تِرا نقشِ کفِ پا آخرِ شب
کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیرِ در مئے خانہ
کوئی دیوانہ، کوئی آبلہ پا، آخرِ شب
سانس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں
کوئی لیتا تھا تِرا نام وفا آخرِ شب
گل ہے قندیلِ حرم، گل ہیں کلیسا کے چراغ
سُوئے پیمانہ بڑھے دستِ دعا آخرِ شب
ہائے کس دھوم سے نکلا ہے شہیدوں کا جلوس
جرم چپ سر بہ گریباں ہے جفا آخرِ شب
اسی انداز سے پھر صبح کا آنچل ڈھلکے
"اسی انداز سے چل بادِ صبا آخرِ شب"

مخدوم محی الدین

No comments:

Post a Comment