لبِ اظہار پہ تالے ہیں، زباں بندی ہے
فکرِ آزاد پہ اس دور میں پابندی ہے
حاکمِ شہر کو ہے زعم کہ وہ جو بھی کہے
بس وہ سُنت ہے، وہی شرعِ خداوندی ہے
بلبلو! اپنے پر و بال کی اب فکر کرو
کوئی منصور ہے، سرمد ہے، نہ رومی جامی
عشق بازار میں مدت سے بہت مندی ہے
کیسے ممکن ہے کریں پرورشِ لوح و قلم
فکر محبوس ہے، مکتب کی فضا گندی ہے
منبر و مسجد و محراب پہ قابض وہ ہیں
جن کے کردار سے بے زار خردمندی ہے
علم ہوتا تھا تعارف کبھی، اب حال ہے یہ
کوئی سید، کوئی خواجہ، کوئی آفندی ہے
شہرِ برباد کے آباد ہوئے دار و رسن
خامہ لب بستہ، بہ آزار برُو مندی ہے
اجنبیت کی پناہوں میں بھرے شہر میں ہیں
فکر و دانش کی سزا گویا نظربندی ہے
تبسم نواز
Good sir g
ReplyDelete