انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی
قسمت میں مِری اتنے کہاں تھے تِرے غم بھی
جس لغزش آدمؑ سے خلافت ہے مزین
اس جوشِ محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی
اہلوں کے مقامات پہ نا اہل ہیں فائز
گھٹتا ہے اب اس شہر تمدن میں تو دَم بھی
آ جائے میسر جو کوئی ڈھب کا خریدار
ہم لوگ تو بِک جاتے ہیں بے دام و درم بھی
"یہ بات غلط شہر میں "تم سے ہیں ہزاروں
اے جانِ طرب! آج تو نایاب ہیں ہم بھی
پہلے تو اعزاء مِرے رونے پہ ہنسے ہیں
دنیا پہ گزرتا ہے گِراں اب تِرا غم بھی
انسان کی کیا بات ہے، پتھر کی سِلوں پر
محفوظ ابھی تک ہیں کئی نقشِ قدم بھی
لازم ہے کہ شایان تجلی ہوں نگاہیں
ہونے کو تو یوں طالبِ دیدار ہیں ہم بھی
اس شہر میں چلتی نہیں اخلاق کی راہیں
اس دور میں ناپید ہیں اربابِ ہمم بھی
ڈر ہے کہیں اس کو بھی نہ اپنا لے زمانہ
محدود ابھی تو ہے ہمیں تک تِرا غم بھی
حیرت ہے کہ رکتے ہیں جہاں زیست کے رہرو
کہتے ہیں اسی قریۂ ہستی کو عدم بھی
شام آئی، سمندر میں چلا ڈوبنے سورج
اک روز تِرے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی
دیوانے اگر جھانجھ میں کہہ دیں گے کوئی بات
رہ جائیں گے منہ دیکھ کے قرطاس و قلم بھی
تُو نے کبھی اس راز کو سوچا ہے نہ سمجھا
ہیں تیرے تعاقب میں تِرے نقش قدم بھی
ہر چند کہ شکوہ ہے غمِ ہِجر کا، لیکن
جینے میں معاون ہے تِرے ہِجر کا غم بھی
تاریک شبوں میں بھی کئی غار تھے روشن
اے کاش وہ خوش کام سماں دیکھتے ہم بھی
میں مسند و اورنگ سے غافل تو نہیں ہوں
ہے میری نظر میں تِرا معیار کرم بھی
لبریز کیا ہے تو سنبھالو ہمیں، ورنہ
شیشے کی طرح گِر کے بِکھر جائیں گے ہم بھی
تشخیصِ مرض چارہ گرو! سوچ سمجھ کر
ہوتا ہے مجھے درد کی تخفیف کا غم بھی
تم لوگ زباں دے کے بھی پِھر جاتے ہو اکثر
ہم لوگ نبھا دیتے ہیں بے قول و قسم بھی
کل رات سے سینہ میں وہی پہلی خلِش ہے
اب ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے بھرم بھی
جو سینہ سِپر عرصۂ ہستی میں ہیں دانشؔ
دشوار نہیں ان کے لیے راہِ عدم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی
قسمت میں مِری اتنے کہاں تھے تِرے غم بھی
جس لغزش آدمؑ سے خلافت ہے مزین
اس جوشِ محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی
اہلوں کے مقامات پہ نا اہل ہیں فائز
گھٹتا ہے اب اس شہر تمدن میں تو دَم بھی
آ جائے میسر جو کوئی ڈھب کا خریدار
ہم لوگ تو بِک جاتے ہیں بے دام و درم بھی
"یہ بات غلط شہر میں "تم سے ہیں ہزاروں
اے جانِ طرب! آج تو نایاب ہیں ہم بھی
پہلے تو اعزاء مِرے رونے پہ ہنسے ہیں
دنیا پہ گزرتا ہے گِراں اب تِرا غم بھی
انسان کی کیا بات ہے، پتھر کی سِلوں پر
محفوظ ابھی تک ہیں کئی نقشِ قدم بھی
لازم ہے کہ شایان تجلی ہوں نگاہیں
ہونے کو تو یوں طالبِ دیدار ہیں ہم بھی
اس شہر میں چلتی نہیں اخلاق کی راہیں
اس دور میں ناپید ہیں اربابِ ہمم بھی
ڈر ہے کہیں اس کو بھی نہ اپنا لے زمانہ
محدود ابھی تو ہے ہمیں تک تِرا غم بھی
حیرت ہے کہ رکتے ہیں جہاں زیست کے رہرو
کہتے ہیں اسی قریۂ ہستی کو عدم بھی
شام آئی، سمندر میں چلا ڈوبنے سورج
اک روز تِرے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی
دیوانے اگر جھانجھ میں کہہ دیں گے کوئی بات
رہ جائیں گے منہ دیکھ کے قرطاس و قلم بھی
تُو نے کبھی اس راز کو سوچا ہے نہ سمجھا
ہیں تیرے تعاقب میں تِرے نقش قدم بھی
ہر چند کہ شکوہ ہے غمِ ہِجر کا، لیکن
جینے میں معاون ہے تِرے ہِجر کا غم بھی
تاریک شبوں میں بھی کئی غار تھے روشن
اے کاش وہ خوش کام سماں دیکھتے ہم بھی
میں مسند و اورنگ سے غافل تو نہیں ہوں
ہے میری نظر میں تِرا معیار کرم بھی
لبریز کیا ہے تو سنبھالو ہمیں، ورنہ
شیشے کی طرح گِر کے بِکھر جائیں گے ہم بھی
تشخیصِ مرض چارہ گرو! سوچ سمجھ کر
ہوتا ہے مجھے درد کی تخفیف کا غم بھی
تم لوگ زباں دے کے بھی پِھر جاتے ہو اکثر
ہم لوگ نبھا دیتے ہیں بے قول و قسم بھی
کل رات سے سینہ میں وہی پہلی خلِش ہے
اب ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے بھرم بھی
جو سینہ سِپر عرصۂ ہستی میں ہیں دانشؔ
دشوار نہیں ان کے لیے راہِ عدم بھی
احسان دانش
No comments:
Post a Comment