Wednesday 29 April 2015

جب انہی کو نہ سنا پائے غم جاں اپنا

جب انہی کو نہ سنا پائے غمِ جاں اپنا
چپ لگی ایسی کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نارسائی کا بیاں ہے، کہ ہے عرفاں اپنا
اس جگہ اہرمن اپنا ہے، نہ یزداں اپنا
دَم کی مہلت میں ہے، تسخیرِ مہ و مہر کی دُھن 
سانس، اِک سلسلۂ خوابِ درخشاں اپنا
ہے طلب اس کی، کہ جو سرحدِ امکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں،حائل ہے بیاباں اپنا
کیسی دوری، اسی شعلے کی ہے ضو میرا جمال
جس سے تابندہ رہا دیدۂ گریاں اپنا
ارمغاں ہیں تِری چاہت کے شگفتہ لمحے 
بے خودی اپنی، شب اپنی، مہِ تاباں اپنا
اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا 
صبحِ گلزار ہوا، سینۂ ویران اپنا
ایسی گھڑیاں کئی مجھ ایسوں پہ آئیں ہوں گی
وقت نے جن سے سجا رکھا ہے ایواں اپنا

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment