Saturday 18 April 2015

وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا

وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا
وہ دوسروں سے مگر مجھ کو کچھ جدا سا لگا
مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
وہ جس کی کم سخنی کو غرور سمجھا گیا
میری نگاہ کو وہ پیکرِ حیا سا لگا
میں اپنے کرب کی رُوداد اس سے کیا کہتا
خود اس کا دل بھی مجھے کچھ دُکھا دُکھا سا لگا
غبارِ وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فِضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہے
فسانہ جو بھی سنا کچھ سنا سنا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہمسفر بھی ملا، کچھ تھکا تھکا سا لگا
کچھ اس خلوص سے اس نے مجھے کہا اقبالؔ
خود اپنا نام بھی مجھ کو بہت بڑا سا لگا

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment