Saturday 18 April 2015

مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید

میں نے کچھ اور کہا آپ سے اور آپ نے کچھ اور سنا
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید
جب بھی ملئے وہی شکوے وہی ماتھے پہ شکن
آپ سے کوئی ملے آپ کا منشا ہی نہیں ہے شاید
میں نے تو پُرسشِ احوال بھی کی اور مخاطب بھی ہوا
حسنِ اخلاق مگر آپ کا شیوہ ہی نہیں شاید
بات اب منزلِ تشہیر تک آ پہنچی ہے جستہ جستہ
اب بجز ترکِ تعلق کوئی رستہ ہی نہیں ہے شاید
آپ کچھ بھی کہیں ناقابلِ تردید حقیقت ہے یہ
آپ کو میری صداقت پر بھروسا ہی نہیں ہے شاید
اب وہ احباب نہ ماحول نہ آداب نہ پرسش نہ سلام
اب تو محفل میں کوئی اپنا شناسا ہی نہیں ہے شاید
حاکمِ شہر" پہ "تنقید" کا اقبالؔ "نتیجہ" معلوم"
اور وہ یہ کہ تمہیں شہر میں رہنا نہیں ہے شاید

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment