Wednesday 29 April 2015

لگ کر کھڑا رہا کہیں دیوار سے اگر

لگ کر کھڑا رہا کہیں دیوار سے اگر
میں لوٹ کر نہ آ سکا بازار سے اگر
اک شور ہاؤ ہو مِرے اندر مچا ہوا
یہ شور بڑھ گیا تِرے انکار سے اگر
گھر سے نکل تو آؤں گا میں تیرے حکم پر
اور پوچھنا پڑا تجھے اخبار سے اگر
اس واسطے تو ترکِ تعلق کی بات کی
تُو گِر گیا کبھی مِرے معیار سے اگر
پھر کاٹنا پڑے گی تجھے اپنی شاہ رگ
میں بچ کے آ گیا تِری تلوار سے اگر
بیٹھا تو ہوں میں شام سے اوصافؔ منتظر
آیا نہ رات بھر کوئی اس پار سے اگر

اوصاف شیخ

No comments:

Post a Comment