لگ کر کھڑا رہا کہیں دیوار سے اگر
میں لوٹ کر نہ آ سکا بازار سے اگر
اک شور ہاؤ ہو مِرے اندر مچا ہوا
یہ شور بڑھ گیا تِرے انکار سے اگر
گھر سے نکل تو آؤں گا میں تیرے حکم پر
اس واسطے تو ترکِ تعلق کی بات کی
تُو گِر گیا کبھی مِرے معیار سے اگر
پھر کاٹنا پڑے گی تجھے اپنی شاہ رگ
میں بچ کے آ گیا تِری تلوار سے اگر
بیٹھا تو ہوں میں شام سے اوصافؔ منتظر
آیا نہ رات بھر کوئی اس پار سے اگر
اوصاف شیخ
No comments:
Post a Comment