نہیں یہ بات کہ ہم تلخیاں نہیں رکھتے
کشادہ ظرف ہیں لب پر فغاں نہیں رکھتے
ہمارے سر سے کڑی دھوپ اور جائے کہاں
اسے خبر ہے کہ ہم سائباں نہیں رکھتے
غلط نہ سوچ کہ جسموں پہ چیتھڑوں کے ساتھ
ہم ایسے لوگ کوئی داستاں نہیں رکھتے
ہمارا ظرف ہمیں بولنے نہیں دیتا
وہ کم نگاہ کہے ہم زباں نہیں رکھتے
چلیں زمین پہ کچھ لوگ اس طرح جیسے
سروں پہ اپنے کوئی آسماں نہیں رکھتے
عطا ہوا ہے سفر گہرے پانیوں کا انہیں
جو لوگ خواب میں بھی کشتیاں نہیں رکھتے
وہ سب چراغ جلائے ہوئے ہمارے ہیں
جو شعلہ رکھتے ہیں لیکن دھواں نہیں رکھتے
بس ایک خواب بکھرنے کے انتظار میں ہیں
طویل ہم کوئی کارِ جہاں نہیں رکھتے
تمام دیس ہی اپنا ہے اس لئے رزمیؔ
کسی بھی شہر میں اپنا مکاں نہیں رکھتے
خادم رزمی
کشادہ ظرف ہیں لب پر فغاں نہیں رکھتے
ہمارے سر سے کڑی دھوپ اور جائے کہاں
اسے خبر ہے کہ ہم سائباں نہیں رکھتے
غلط نہ سوچ کہ جسموں پہ چیتھڑوں کے ساتھ
ہم ایسے لوگ کوئی داستاں نہیں رکھتے
ہمارا ظرف ہمیں بولنے نہیں دیتا
وہ کم نگاہ کہے ہم زباں نہیں رکھتے
چلیں زمین پہ کچھ لوگ اس طرح جیسے
سروں پہ اپنے کوئی آسماں نہیں رکھتے
عطا ہوا ہے سفر گہرے پانیوں کا انہیں
جو لوگ خواب میں بھی کشتیاں نہیں رکھتے
وہ سب چراغ جلائے ہوئے ہمارے ہیں
جو شعلہ رکھتے ہیں لیکن دھواں نہیں رکھتے
بس ایک خواب بکھرنے کے انتظار میں ہیں
طویل ہم کوئی کارِ جہاں نہیں رکھتے
تمام دیس ہی اپنا ہے اس لئے رزمیؔ
کسی بھی شہر میں اپنا مکاں نہیں رکھتے
خادم رزمی
No comments:
Post a Comment