Friday 24 April 2015

نہیں یہ بات کہ ہم تلخیاں نہیں رکھتے

نہیں یہ بات کہ ہم تلخیاں نہیں رکھتے
کشادہ ظرف ہیں لب پر فغاں نہیں رکھتے
ہمارے سر سے کڑی دھوپ اور جائے کہاں
اسے خبر ہے کہ ہم سائباں نہیں رکھتے
غلط نہ سوچ کہ جسموں پہ چیتھڑوں کے ساتھ
ہم ایسے لوگ کوئی داستاں نہیں رکھتے
ہمارا ظرف ہمیں بولنے نہیں دیتا
وہ کم نگاہ کہے ہم زباں نہیں رکھتے
چلیں زمین پہ کچھ لوگ اس طرح جیسے
سروں پہ اپنے کوئی آسماں نہیں رکھتے
عطا ہوا ہے سفر گہرے پانیوں کا انہیں
جو لوگ خواب میں بھی کشتیاں نہیں رکھتے
وہ سب چراغ جلائے ہوئے ہمارے ہیں
جو شعلہ رکھتے ہیں لیکن دھواں نہیں رکھتے
بس ایک خواب بکھرنے کے انتظار میں ہیں
طویل ہم کوئی کارِ جہاں نہیں رکھتے
تمام دیس ہی اپنا ہے اس لئے رزمیؔ
کسی بھی شہر میں اپنا مکاں نہیں رکھتے

خادم رزمی

No comments:

Post a Comment