Saturday, 25 April 2015

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا
مجھے اب تم سے ڈر لگنےلگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت
قیامت آ رہی تھی، آ گئی کیا
مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے
یہ تم ہنستی ہو، اپنی ہی ہنسی کیا
ہمیں شکوہ نہیں، اک دوسرے سے
منانا چاہیے اس پر خوشی کیا
پڑے ہیں ایک گوشے میں گماں کے
بھلا ہم کیا، ہماری زندگی کیا
میں رخصت ہو رہا ہوں، پر تمہاری
اداسی ہو گئی ہے ملتوی کیا
میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں
فقط کچھ دوست ہیں، اور دوست بھی کیا
محبت میں ہمیں پاسِ انا تھا
بدن کی اشتہا صادق نہ تھی کیا
نہیں رشتہ سموچا زندگی سے
نجانے ہم میں ہے اپنی کمی کیا
ابھی ہونے کی باتیں ہیں، سو کر لو
ابھی تو کچھ نہیں ہونا، ابھی کیا
یہی پوچھا کیا میں آج دن بھر
ہر اک انسان کو روٹی ملی کیا
یہ ربطِ بے شکایت اور یہ میں
جو شے سینے میں تھی، وہ بجھ گئی کیا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment