Sunday 19 April 2015

زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں

زندگی کی راہوں میں، رنج و غم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی، اور ہم اکیلے ہیں
گیسوؤں کے سائے میں ایک شب گزاری تھی
آج تک جدائی کی دھوپ میں اکیلے ہیں
اب تو اپنا سایہ بھی، کھو گیا اندھیروں میں
آپ سے بچھڑ کر ہم، کس قدر اکیلے ہیں
سازشیں زمانے کی، کام کر گئیں آخر
آپ ہیں‌ اُدھر تنہا، ہم اِدھر اکیلے ہیں
کون کس کا ساتھی ہے، ہم تو غم کی منزل ہیں
پہلے بھی اکیلے تھے، آج بھی اکیلے ہیں
کہہ رہی ہے شاہوں سے، قبر کی یہ تنہائی
تاج و تخت کے مالک، آج کیوں‌ اکیلے ہیں؟
آئینے کے سو ٹکڑے، کر کے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں 

صبا افغانی

No comments:

Post a Comment