ابھی وہ کم سِن ابھر رہا ہے، ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ابھی ہے مجھ پر گرفت آدھی، ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا
حجاب و جلوہ کی کشمکش میں اٹھایا اس نے نقاب آدھا
ادھر ہویدا سحاب آدھا، ادھر عیاں ماہتاب آدھا
مِرے سوالِ وصال پر تم، نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہو
لپک کے مجھ کو گلے لگایا خدا کی رحمت نے روزِ محشر
ابھی سنایا تھا محتسب نے مِرے گنہ کا حساب آدھا
بجا کہ اب بال تو سیہ ہیں مگر بدن میں سکت نہیں ہے
شباب لایا خضاب لیکن خضاب لایا شباب آدھا
لگا کے دلاسے پہ لے کے آیا ہوں شیخ صاحب کو میکدے میں
اگر یہ دو گھونٹ آج پی لیں، ملے گا مجھ کو ثواب آدھا
کبھی ستم ہے کبھی کرم ہے، کبھی توجہ کبھی تغافل
یہ صاف ظاہر ہے مجھ پہ اب تک، ہوا ہوں میں کامیاب آدھا
کسی کی چشم سُرور آور سے اشک عارض پہ ڈھل رہا ہے
اگر شعورِ نظر سے دیکھو، شراب آدھی گلاب آدھا
پرانے وقتوں کے لوگ خوش ہیں مگر ترقی پسند خاموش
تِری غزل نے کیا ہے برپا سحرؔ ابھی انقلاب آدھا
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
بہت خوب
ReplyDelete