Monday, 27 April 2015

ظاہر میں ہم فریفتہ حسن بتاں کے ہیں

ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں
یارانِ رفتہ سے کبھی جا ہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں
ٹھکرا کے میرے سر کو وہ کہتے ہیں ناز سے
لو ایسے مفت سجدے مِرے آستاں کے ہیں
شکوہ شبِ وصال میں تاچند، چُپ بھی ہو
اے دل! نکالے تُو نے یہ جھگڑے کہاں کے ہیں
دنیا میں بھی سفر، ہمیں عقبیٰ میں بھی سفر
ہم لوگ رہنے والے الہٰی! کہاں کے ہیں
خنجر کو چُوس چُوس کے کہتے ہیں میرے زخم
ظالم مزے بھرے ہوئے تجھ میں کہاں کے ہیں
وہ، اور وعدہ وصل کا، قاصد، نہیں، نہیں
سچ سچ بتا، یہ لفظ انہی کی زباں کے ہیں
بلبل کو شوقِ گُل تھا، نہ قمری کو عشقِ سرو
سارے یہ گُل کھِلائے ہوئے باغباں کے ہیں
ان ابروؤں سے، حضرتِ دل، روز سامنا
کہیے تو ایسے آپ بہادر کہاں کے ہیں
اس طفلِ تند خُو سے جو مِلتا ہوں میں امیرؔ
کہتے ہیں لوگ ڈھنگ بُرے اِس جواں کے ہیں

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment