Wednesday 29 April 2015

تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا

تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا
نہ مِلے ہو نہ فاصلہ رکھا
نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا
تُو نے ہم کو بھی پارسا رکھا
پھول کھِلتے ہی کھُل گئیں آنکھیں 
کس نے خوشبو میں سانحہ رکھا
تُو نہ رسوا ہو اس لیے ہم نے
اپنی چاہت پہ دائرہ رکھا
جھوٹ بولا تو عمر بھر کے لیے
تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا
کوئی دیکھے یہ سادگی اپنی
پھول یادوں کا اک سجا رکھا
سعدؔ الجھا رہا، مگر اس نے
تجھ سے مِلنے کا راستہ رکھا

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment