Monday 17 December 2018

کھولو تو سہی زلف ذرا شام سے پہلے

کھولو تو سہی زلف ذرا شام سے پہلے

چھا جائے گی گھنگھور گھٹا شام سے پہلے

لٹ جانا بڑی بات نہیں شہر میں تیرے 

حد یہ ہے کہ ہر شخص لٹا شام سے پہلے

اک شب کے لیے اس نے کیا وصل کا اقرار

حیرت ہے کہ پھر بھول گیا شام سے پہلے

صبح گلرنگ کوئی شام سہانی لا دے

صبحِ گل رنگ کوئی شام سہانی لا دے

کوئی تو وصل کے موسم کی نشانی لا دے

اتنا بے مول نہیں ہوں کہ سہارا مانگوں

ہو جو ممکن تو مجھے میری جوانی لا دے

کتنی پژمردہ ہیں اس شہر میں دل کی فصلیں 

بارشیں پیار کی لا، درد کا پانی لا دے

کیا ترے ملنے کا امکان بھی پورا ہو گا

 کیا تِرے ملنے کا امکان بھی پورا ہو گا 

جو مِرے دل میں ہے ارمان بھی پورا ہو گا

جو تِرے عہدِ ستمگر میں ہوا ہے اب تک 

ہم فقیروں کا وہ نقصان بھی پورا ہو گا 

سجدۂ شوق بجا لانے کی توفیق تو دے

پھر تِری سمت مِرا دھیان بھی پورا ہو گا

کیا خریدو گے جو اس شہر میں ہم بیچتے ہیں

 کیا خریدو گے جو اس شہر میں ہم بیچتے ہیں 

ہم غریبانِ وطن، رنج و الم بیچتے ہیں

زہر لگتے ہیں مجھے ایسے لکھاری جو یہاں

چند سکوں کے عوض اپنا قلم بیچتے ہیں

ایسے کچھ لوگ تِری دنیا میں ہیں، ربِ جہاں 

اپنا ایمان و یقیں، دِین و دَھرم بیچتے ہیں