Sunday 30 April 2017

آنکھیں کبھی زلفیں کبھی لب دیکھ رہے ہیں

آنکھیں کبھی زلفیں، کبھی لب دیکھ رہے ہیں
آئینے میں گزری ہوئی شب دیکھ رہے ہیں
جب تک تھے مرے سامنے آنکھوں میں حیا تھی
جاتے ہوئے مڑ مڑ کے وہ اب دیکھ رہے ہیں
اللہ بچائے نگہِ بد سے کسی کی
محفل میں انہیں آج تو سب دیکھ رہے ہیں

لب اگر کھول دوں اک طرفہ تماشا ہو جائے

لب اگر کھول دوں، اک طرفہ تماشا ہو جائے
جانے پھر کون تری بزم میں رسوا ہو جائے
بے نیازِ حرم و دیر ہے سجدہ میرا
میں جہاں سر کو جھکا دوں وہیں کعبہ ہو جائے
ظلمتِ شب سے ہے بے زار نظامِ عالم
’’تو جو زلفوں کو ہٹا دے تو سویرا ہو جائے‘‘

خوشا قسمت وہ آئے ہیں تو ایسے میں دعا جاگے

خوشا قسمت وہ آئے ہیں تو ایسے میں دعا جاگے
گھٹا برسے، اٹھے ساغر، نظامِ مے کدہ جاگے
خمار آلودہ آنکھیں، سرخ چہرہ، منتشر زلفیں
وہ کیا جاگے کہ فطرت کے نقوشِ فتنہ زا جاگے
نہیں ٹوٹا ابھی پِندارِ زہد و اِتَّقا شاید
کوئی ساغر بکف جادو نظر کافر ادا جاگے

کیوں ہو گیا ہے سرد یہ بازار کچھ کہو

کیوں ہو گیا ہے سرد یہ بازار کچھ کہو
یوسفؑ کا بھی نہیں ہے خریدار کچھ کہو
اے حازقانِ وقت، طرحدار کچھ کہو
کیوں ہے خموش آپ کا بیمار کچھ کہو
زنداں میں رہ کے کس لیے لب ہیں تمہارے بند
کیا جرم ہے تمہارا سزاوار کچھ کہو

یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو

یہ عاشقی بھی جرم میں شامل اگر نہ ہو
تعزیر کیوں ہو شہر میں قاتل اگر نہ ہو
کوئی شبِ سیاہ میں کیسے سفر کرے
تاریکیوں میں روشنی حائل اگر نہ ہو
منزل کی جستجو میں بھٹکنا اِدھر اُدھر
لازم ہے یہ تعیّنِ منزل اگر نہ ہو

کیا ان کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج

کیا ان کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج
سنسان نظر آتی ہے کیوں راہگزر آج
اے چارہ گرو غور سے بیمار کو دیکھو
دشوار نظر آنے لگی اس کو سحر آج
ہو جائے مرے خواب کی تعبیر مکمل
اے کاش وہ بھولے سے ہی آ جائیں اِدھر آج

کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ

کیسے کوئی شمار کرے آدمی کے روپ
ظلمت میں ڈھل رہے ہوں جہاں روشنی کے روپ
اس انقلابِ دہر پہ حیرت ہو کس لیے
پردے میں دوستی کے ہیں اب دشمنی کے روپ
خود دیکھ لو کے رنگ بدلتے ہیں کس قدر
میں کیا بتاؤں کتنے ہیں کس آدمی کے روپ

نہ رہزنوں کو میسر نہ رہبروں کے پاس

نہ رہزنوں کو میسر، نہ رہبروں کے پاس
وہ آگہی کہ جو لے جاۓ منزلوں کے پاس
ہر ایک شے سے نمایاں وجود ہے اس کا
نظر سے دور سہی، ہے مگر دلوں کے پاس
کبھی نہ ہوں گے تحفظ پہ شہر کے راضی
ہزار قسم کے حیلے ہیں بزدلوں کے پاس

Saturday 29 April 2017

اٹھو سبو اٹھاؤ اٹھو ساز و جام لو

اٹھو، سبو اٹھاؤ، اٹھو ساز و جام لو
دو دن کی زندگی ہے کوئی نیک کام لو
یا تم بھی میرے ساتھ ہی گر جاؤ جھوم کر
یا پھر مجھے بھی فرطِ محبت سے تھام لو
یہ بھی سلام لینے کا ہے قاعدہ کوئی
آنکھیں ملاؤ، ہاتھ بڑھا کر سلام لو

ساقی کے گیسوؤں کی ہوا کھا رہا ہوں

ساقی کے گیسوؤں کی ہوا کھا رہا ہوں
اور اس ہوا کے ساتھ اڑا جا رہا ہوں میں
اے وحشتِ خیال! نتیجہ تیرے سپرد
ساغر کو کائنات سے ٹکرا رہا ہوں میں
جاتا ہوں بزمِ حشر میں اس بے دلی کے ساتھ
جیسے کسی رقیب کے گھر جا رہا ہوں میں

جب وہ میرے قریب ہوتا ہے

جب وہ میرے قریب ہوتا ہے
وہ سماں کیا عجیب ہوتا ہے
ہائے، بیچارگی پتنگے کی
کیسے قرباں غریب ہوتا ہے
غم کو دل سے لگا کے کیوں نہ رکھوں
یہ تو میرا حبیب ہوتا ہے

دل سادہ کو با تصویر کر دے

دلِ سادہ کو با تصویر کر دے
مِرے کاغذ پہ کچھ تحریر کر دے
عبادت کرتے کرتے تھک گیا ہے
تو اے زاہد! کوئی تقصیر کر دے
مجھے بھی عشق ہے ذاتِ خدا سے
مجھے بھی کوئی بت تعمیر کر دے

Thursday 27 April 2017

ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا

ابرو ہے کعبہ، آج سے یہ نام رکھ دیا
ہم نے اٹھا کے طاق پہ اسلام رکھ دیا
نشے میں جا گرا جو میں مسجد میں سر کے بَل
زاہد نے مجھ پہ سجدے کا الزام رکھ دیا
جھجکا وہ خوف کھا کے تو میں نے تڑپ کے خود
برچھی کی نوک پر دلِ ناکام رکھ دیا

سواد خط ترے خط میں تری تحریر کا سا تھا

سوادِ خط تِرے خط میں تِری تحریر کا سا تھا
مگر بگڑا ہوا میرے خطِ تقدیر کا سا تھا
تِری تصویر وہ جو ہے شباب آنے سے پہلے کی
فلک پر چودھویں کا چاند اسی تصویر کا سا تھا
کبھی دیکھا نہ تھا پہچاں سکتا کیا میں گیسو کو
کچھ اس کے سَر پہ ہاں لٹکا ہوا زنجیر کا سا تھا

میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا

میں جو رویا خلق کی نظروں سے بادل گر گیا
اس کی ساری آبرو پر آج پانی پھر گیا
دل میں وہ مجھ کو برا سمجھا مگر سمجھا تو کچھ
ہوں رسا اتنا کہ میں نظروں سے تا خاطر گیا
کس قدر بیدل ہوا میں جا کے اس بدخو کے پاس
اس طرح کھویا کہ گویا کچھ بغل سے گر گیا

کتنے احسان فروشوں کا بھرم توڑ دیا

کتنے احسان فروشوں کا بھرم توڑ دیا
دے کے خیراتِ سخن ہم نے قلم توڑ دیا
ہم نے احرامِ محبت کبھی بدلا ہی نہیں
تم نے موجود جو تھا دل میں حرم توڑ دیا
رفتہ رفتہ مِرے احباب ہوئے دشمنِ جاں
تیشۂ زر نے بھروسے پہ ستم توڑ دیا

کچھ تو دعائے نیم شبی کا اثر ہوا

کچھ تو دعائے نیم شبی کا اثر ہوا
روشن کسی کے آنے سے دل کا نگر ہوا
فرقت کی شب نے جس کو جلایا تھا ایک عمر
وہ اک دِیا 🪔 بھی آج سپردِ سحر ہوا
جس کو یہ زعم تھا کہ بھلا دے گا وہ مجھے
اک پل مِرے بغیر نہ اس سے بسر ہوا

عشق کا زخم جو منت کش مرہم ہوتا

عشق کا زخم جو منت کشِ مرہم ہوتا
عید کے روز بھی ہر گھر میں محرم ہوتا
ڈر نہ ہوتا جو کہیں عشق میں رسوائی کا
ساتھ عشاق کے اک حلقۂ ماتم ہوتا
آتشِ عشق میں جلنے کا مزا اپنا ہے
تم نہ ہوتے تو یہ شعلہ ہمیں شبنم ہوتا

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں
میں ہوں مغرور اور بلا کا ہوں
تٗو بھی ہے اک چراغِ مہلت شب 
میں بھی جھونکا کسی ہوا کا ہوں
پھینک مجھ پر کمند ناز اپنی 
آج میں ہم سفر صبا کا ہوں

غموں کی رات ہے اور اتنی مختصر بھی نہیں

غموں کی رات ہے اور اتنی مختصر بھی نہیں
بہت دنوں سے تمہاری کوئی خبر بھی نہیں
اے شہرِ دل! تِری گلیوں میں خاک اڑتی ہے
یہ کیا ہوا کہ یہاں کوئی نوحہ گر بھی نہیں
تُو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں
کہ اب تو تجھ سے بچھڑنے کا کوئی ڈر بھی نہیں

میری نظر کا مدعا اس کے سوا کچھ بھی نہیں

میری نظر کا مدعا اس کے سوا کچھ بھی نہیں
اس نے کہا کیا بات ہے؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں
ہر ذہن کو سودا ہوا،۔ ہر آنکھ نے کچھ پڑھ لیا 
لیکن سرِ قرطاسِ جاں میں نے لکھا کچھ بھی نہیں
دیوارِ شہرِ عصر پر کیا قامتیں چسپاں ہوئیں 
کوشش تو کچھ میں نے بھی کی لیکن بنا کچھ بھی نہیں

ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے

ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے
بستی میں ہول آیا، تو جنگل میں جا رہے
کمرے میں میرے دھوپ کا آنا بوقت صبح
آنکھوں میں کاش ایک ہی منظر بسا رہے
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کوئی کسی عزیز سے کب تک خفا رہے

نہ چین دل کو رہا اور نہ کچھ قرار رہا

فلمی گیت

جب دل کو ستاوے غم
تُو چھیڑ سکھی سرگم
جب دل کو ستاوے غم

بڑا زور ہے سات سروں میں
بہتے آنسو گاتے ہیں ہم
تُو چھیڑ سکھی سرگم
جب دل کو ستاوے غم

Saturday 22 April 2017

تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو

تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم مجھے واقعتاً چھوڑ کے جا سکتے ہو
ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم سے باتوں میں کچھ اس درجہ مگن ہوتا ہوں 
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ کے جا سکتے ہو

ذرا سی دیر جلے جل کے راکھ ہو جائے

ذرا سی دیر جلے، جل کے راکھ ہو جائے
وہ روشنی دے بھلے، جل کے راکھ ہو جائے
میں دور جا کے کہیں بانسری بجاؤں گا
بلا سے روم جلے، جل کے راکھ ہو جائے
وہ آفتاب جسے تم سلام کرتے ہو
جو وقت پر نہ ڈھلے، جل کے راکھ ہو جائے

بہت خلوص بھی سود و زیاں تک آتا ہے

بہت خلوص بھی سُود و زیاں تک آتا ہے
ہو چاہے کوئی تعلق، یہاں تک آتا ہے
کئی شکوک مِرے دل میں بیٹھ جاتے ہیں
سوال اٹھتا ہے، اٹھ کر زباں تک آتا ہے
پلک جھپکتا ہے دیوانہ تجھ کو دیکھتے ہی 
پلک جھپکنے میں دونوں جہاں تک آتا ہے

اور اک یہ جرم بھی میں نے کیا تھا

اور اک یہ جرم بھی میں نے کیا تھا
میں تیرے بعد بھی کچھ دن جیا تھا
ندی کا ذائقہ یہ کہہ رہا ہے
درندے نے یہیں پانی پیا تھا
ہزاروں سال پہلے بھی یہاں پر
یہی میں تھا، یہی بجھتا دیا تھا

چراغ فکر تجھے بھی بجھانے والا ہوں

چراغِ فکر تجھے بھی بجھانے والا ہوں
میں ایک وہم پر ایمان لانے والا ہوں
اکیلا بیٹھ گیا کرسیاں سجا کر میں
اب ان کو ایک کہانی سنانے والا ہوں
میں سوچتا ہوں جلا دوں تمہاری دنیا کو
مگر ابھی تو میں سگریٹ جلانے والا ہوں

Friday 21 April 2017

نہ کوئی نام نہ کوئی نسب وسب تیرا

نہ کوئی نام نہ کوئی نسب وسب تیرا
مگر ہے عشق کی تہذیب میں ادب تیرا
تو میرے جسم کی آتش نہیں بجھا پائی
مرے لیے تو ہے بے کار حسن سب تیرا
پرانے دشت سے آوارگی جدا میری
جدید شہر کی خاموشیوں سا ڈھب تیرا

مانا جسم کمینہ ہے اور روح بڑی حرافہ ہے

مانا جسم کمینہ ہے اور روح بڑی حرافہ ہے
لیکن اس میں تیرا ہونا خاطر خواہ اضافہ ہے
تجھ کو پا کر ویسے بھی تو خسارے میں تھے ہم جیسے
غور کریں تو تجھ کو کھو دینا بھی کوئی منافع ہے
کرنیں پھوٹ رہی ہیں اس سے جیسے پیلی چاندی کی
برق بدن پر لپٹی ہوئی ہے یا کوئی صرافہ ہے

کیوں کشمکش میں ہیں کہ ہمارا نہیں کوئی

کیوں کشمکش میں ہیں کہ ہمارا نہیں کوئی
ہم ہی پکار لیں جو پکارا نہیں کوئی
تجھ کو بھی پہلے جیسی محبت نہیں رہی
اور چاہیے مجھے بھی دوبارہ نہیں کوئی
میں خود سمندروں سے زیادہ تباہ ہوں
اور اس لیے کہ میرا کنارہ نہیں کوئی

یہ جو تجھ کو حاصل کرنے کی لت بہت زیادہ ہے

یہ جو تجھ کو حاصل کرنے کی لت بہت زیادہ ہے
رسوائی کے شہر میں اپنی شہرت بہت زیادہ ہے
چالس راتیں اب بھی تیرے ہجر کی شاید باقی ہیں
وصل تو ہو جائے گا لیکن مدت بہت زیادہ ہے
اس کے ساتھ تو شہروں میں بھی اپنا گزارہ کب ہو گا
وہ معشوق کہ جس کو سب سے وحشت بہت زیادہ ہے

پتھروں جیسی خموشی نہیں آتی مجھ کو

پتھروں جیسی خموشی نہیں آتی مجھ کو
موت اب اتنی بری بھی نہیں آتی مجھ کو
اب مساوات کا اِملا نہیں معلوم مجھے
اب یہ ترکیبِ ریاضی نہیں آتی مجھ کو
مِری آواز کو ٹی بی کا مرض ہو گیا ہے
اور دھوکے سے بھی کھانسی نہیں آتی مجھ کو

اس دنیا سے باہر ہو موجود وہ دنیا ممکن ہے

اس دنیا سے باہر ہو موجود وہ دنیا ممکن ہے
لیکن اس کی خاطر اس کو کھودینا کیا ممکن ہے
ہنستی بستی بولتی دنیا اک سوکھے تالاب سی ہے
زور سے پتھر مار کے جس میں چھینٹ اڑانا ممکن ہے
عین جوانی کے دن میں بچگانے پن کے امکاں ہیں
اور بچپن کے گلیاروں میں عین بڑھاپا ممکن ہے

کیا ہو جو اس شدید نفرت کے دور میں کسی سے بے پناہ محبت کی جائے

کیا ہو 
جو اس شدید نفرت کے دور میں
کسی سے بے پناہ محبت کی جائے
اور اس محبت کی پاداش میں
لوگ چوراہے پر سنگسار کر دیں
یا حکومت پھانسی کی سزا دے

شب کہیں رستے ہوئے زخموں کا خمیازہ نہ ہو

شب کہیں رستے ہوئے زخموں کا خمیازہ نہ ہو
دن کے تلووں پر ہواؤں کا سیہ غازہ نہ ہو
دیکھ کر اب انتخاب خواب کرنا زندگی
یہ نہ ہو کہ خود کو کھو دینے کا اندازہ نہ ہو
ایسی کچھ افسردگی پانی پہ لکھی ہونٹ نے
جیسے یہ مٹی زدہ برسوں میں بھی تازہ نہ ہو

کیا اداسی ہے کہ رونا بھی نہیں کام آتا

کیا اداسی ہے کہ رونا بھی نہیں کام آتا
ایسے سناٹے میں سونا بھی نہیں کام آتا
اک لہو رنگ میرے خامۂ جاں پر ہے جسے
جھاڑنا بھی نہیں، دھونا بھی نہیں کام آتا
جان لیجے کہ یہ تقدیر کے بکھرے ہوئے کام
ایسے ہیں جن کو پرونا بھی نہیں کام آتا

Wednesday 19 April 2017

چھو لیں گے ہم جب سوچیں گے

چھو لیں گے ہم جب، سوچیں گے
پھول ہیں یا وہ لب، سوچیں گے
پھولوں جیسے لوگ ہیں کیسے
دل ٹوٹے گا تب سوچیں گے
دیکھ رہے تھے کیوں مجھ کو تم
دل ہی دل میں سب سوچیں گے

ہے فصل گل تو دل میں اتر جانا چاہیے

ہے فصلِ گل تو دل میں اتر جانا چاہیے
ہر سمت خوشبوؤں کو بکھر جانا چاہیے
راہِ وفا میں جاں سے گزر جانا چاہیے
جب یہ نہ ہو تو شرم سے مر جانا چاہیے
گرداب سے بھی صاف گزر جانا چاہیے
یا کشتی انا سے اتر جانا چاہیے

کبھی حریف کبھی ہمنوا ہمیں ٹھہرے

کبھی حریف، کبھی ہم نوا ہمِیں ٹھہرے
کہ دشمنوں کے بھی مشکل کشا ہمیں ٹھہرے
کسی نے راہ کا پتھر ہمیں کو ٹھہرایا
یہ اور بات کہ پھر آئینہ ہمیں ٹھہرے
جو آزمایا گیا شہر کے فقیروں کو
تو جاں نثارِ طریقِ انا ہمیں ٹھہرے

اب کے سفر میں پچھلے سفر سا مزا نہ تھا

اب کے سفر میں پچھلے سفر سا مزا نہ تھا
تلوے میں میرے جیسے کوئی آبلہ نہ تھا
یہ کیا کہ دو قدم پہ ہی سانسیں اکھڑ گئیں
پہلے تو چلتے چلتے کبھی ہانپتا نہ تھا
میں اس کے نام پہلے بھی لکھتا تھا خط، مگر
کاغذ تو اس طرح سے کبھی بھیگتا نہ تھا

میاں دیکھا نہیں جاتا کریں کیا دیکھ لیتے ہیں

میاں، دیکھا نہیں جاتا، کریں کیا دیکھ لیتے ہیں
یہ دنیا جو دکھاتی ہے تماشا دیکھ لیتے ہیں
وہی منظر، وہی مایوس چہرے گھر سے باہر تک
ہے عادت دیکھ لینے کی لہٰذا دیکھ لیتے ہیں
جو بس چلتا تو آنکھوں کو کبھی رسوا نہ کرتے ہم
عجب اک خواب ہے جو بے ارادہ دیکھ لیتے ہیں

Tuesday 11 April 2017

ہوائیں تیز ہیں بجھتا دیا ہے

ہوائیں تیز ہیں، بجھتا دِیا ہے
تمہارا نام پھر دل نے لیا ہے
ابھی کہتا ہوں میں تازہ غزل بھی
ابھی تو زہر کا ساغر پیا ہے
تبسم، ۔۔۔ یہ غریبانہ تبسم
فقط رودادِ غم کا حاشیہ ہے

دل سلگنے لگا دعا بن کر

دل سلگنے لگا دعا بن کر
پھر وہ گزرا، مگر ہوا بن کر
مضمحل تھے مِرے خیالوں میں
لفظ مر ہی گئے صدا بن کر
خود فریبی سی خود فریبی ہے
باہر آنا بہت بھلا بن کر

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا
وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا
ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھلتی
کبھی نہ ساتھ رہا جو، کبھی کا چھوڑ گیا
ہم اپنے کھیت کے ٹیلے رفو بھی کر لیتے
مگر وہ شخص تو دریا کا رخ ہی موڑ گیا

خوامخواہ کا مشیر مر جائے

خوامخواہ کا مشیر مر جائے
کاش میرا ضمیر مر جائے
سازشی ہے، سکون دشمن ہے
آرزو کا سفیر مر جائے
قتلِ احساس یاد آتا ہے
جب بھی کوئی فقیر مر جائے

Monday 10 April 2017

کم سے کم دیر و حرم کا فاصلہ ہوتا نہیں

کم سے کم دیر و حرم کا فاصلہ ہوتا نہیں
اب کوئی مشکل سے بھی مشکل کشا ہوتا نہیں
آہ اپنا کام کر جائے تو دنیا جل اٹھے
کون کہتا ہے غریبوں کا خدا ہوتا نہیں
اب کہاں سے لائے کوئی لالہ و گل کا لہو
زخمِ دل شبنم کے قطروں سے ہرا ہوتا نہیں

انصاف کے ماتھے پہ شکن دیکھ لیا ہے

انصاف کے ماتھے پہ شکن دیکھ لیا ہے
ہم نے اثرِ دار و رسن دیکھ لیا ہے
غنچوں کا لڑکپن ہو کہ پھولوں کی جوانی
ہر ایک نے ماحولِ چمن دیکھ لیا ہے
میں نے تجھے ہر موڑ پہ اک خاص نظر سے
کچھ اور ہی عالم میں مگن دیکھ لیا ہے

زندگی کی سخت زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر

زندگی کی سخت زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر
آج تم بھی ہنس رہے ہو مجھ کو تنہا دیکھ کر
اب تو وہ بھی مجھ سے کترا کر گزر جانے لگے
میرے ماحولِ پریشانی کا نقشا دیکھ کر
حوصلہ کس میں تھا جو دیتا برابر کا جواب
صبر کرنا ہی پڑا ان کا رویّا دیکھ کر

Saturday 8 April 2017

کوئی چلمن سے مسکرایا ہے

کوئی چلمن سے مسکرایا ہے
اب کہیں دھوپ ہے نہ سایا ہے
ابھی اپنا، ابھی پرایا ہے
دل نے بھی کیا مزاج پایا ہے
خوبرو لوگ بے مروت ہیں
ہم نے دل دے کے آزمایا ہے

وفا انجام ہوتی جا رہی ہے

وفا انجام ہوتی جا رہی ہے
محبت خام ہوتی جا رہی ہے
ذرا چہرے سے زلفوں کو ہٹا لو
یہ کیسی شام ہوتی جا رہی ہے
قیامت ہے، محبت رفتہ رفتہ
غمِ ایام ہوتی جا رہی ہے

آج اشکوں کا تار ٹوٹ گیا

آج اشکوں کا تار ٹوٹ گیا
رشتۂ انتظار ٹوٹ گیا
یوں وہ ٹھکرا کے چل دیا گویا
ایک کھلونا تھا پیار، ٹوٹ گیا
روئے رہ رہ کر ہچکیاں لے کر
سازِ غم بار بار ٹوٹ گیا

داغ لہو کے خاروں پر

داغ لہو کے خاروں پر
خاک ایسے گلزاروں پر
تیرے خاک نشینوں کی
آنکھ لگی ہے تاروں پر
کس کے لہو کے چھینٹے ہیں
زنداں کی دیواروں پر

اب ساز وفا میں دم نہیں ہے

اب سازِ وفا میں دم نہیں ہے
وہ سوزِ زیر و بم نہیں ہے
گو خوش تو نہیں ہوں تم کو کھو کر
غم ہے پہ تمہارا غم نہیں ہے
دل کو جو تِری جفا کی خُو ہے
دنیا کا ستم، ستم نہیں ہے

تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے

تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے
سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت
مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے
نگاہِ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا
حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضرب کاری ہے

سنگ چہرہ نما تو میں بھی ہوں

سنگِ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
دیکھیے! آئینہ تو میں بھی ہوں
بیعتِ حسن کی ہے میں نے بھی
صاحبِ سلسلہ تو میں بھی ہوں
کون پہنچا ہے دشتِ امکاں  تک
ویسے پہنچا ہوا تو میں بھی ہوں

Friday 7 April 2017

دنیا تو بچھاتی تھی ہر موڑ پہ دام اپنا

دنیا تو بچھاتی تھی ہر موڑ پہ دام اپنا
بچ بچ کے گزرنا ہی برسوں سے ہے کام اپنا
مائل تھی بنانے پر دنیا تو غلام اپنا
خالی ہی رہا کب سے اس بزم میں جام اپنا
ہر چند کہ لمحاتی ٹھیرا ہے قیام اپنا
تا حشر کہاں ٹھیرے گا حسنِ کلام اپنا

دل و دماغ کو آرام بھی نہیں ملتا

دل و دماغ کو آرام بھی نہیں ملتا
وظیفہ خوار کو اب کام بھی نہیں ملتا
نہ دن گزرتا ہے اپنا نہ رات کٹتی ہے
وہ ملنے والا سرِ شام بھی نہیں ملتا
یہ نرم چارہ نہیں، سخت آزمائش ہے
پڑا ہوا جو کہیں دام بھی نہیں ملتا

گماں تو تھا کہ ایسا تھا نہیں تھا

گماں تو تھا کہ ایسا تھا، نہیں تھا
تِرا غم جان سے پیارا نہیں تھا
نہ جانے وہ خفا تھا یا نہیں تھا
کسی صورت سے کچھ کھلتا نہیں تھا
کتابِ خیر میں کیا کیا، نہیں تھا
وہ کافر مان کر دیتا، نہیں تھا

نہ اب ہے شعلہ مرے اختیار میں نہ ہوا

نہ اب ہے شعلہ مِرے اختیار میں، نہ ہوا
یہ آگ تیری لگائی ہوئی ہے تُو ہی بجھا
ہیں ذہن و دل مِرے تیار کچھ بھی سننے کو
اگر مرض ہے مِرا لاعلاج، مجھ کو بتا
نہ تھا بلندی و پستی کے درمیاں کچھ بھی
پہاڑ سے جو میں لُڑھکا ڈھلان پر نہ ٹِکا

بھروسہ کر کے دیکھا میں نے تو سو بار دل سے

بھروسہ کر کے دیکھا میں نے تو سو بار دل سے
وہ چہرے سے بہت معصوم ہے، عیار دل سے
سنے گا شوق سے قصے زمانے بھر کے لیکن
کہاں سنتا ہے دل کی بات وہ دلدار دل سے
ہو اقلیمِ شہنشاہی کہ جمہوری ولایت
رعایا کی کبھی ہوتی نہیں سرکار دل سے

دم صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے

دمِ صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے 
وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے
نئے ساتھیوں کی دھن میں تِری دوستی کو چھوڑا
کوئی تجھ سا بھی نہ پایا تِرے شہر سے نکل کے
سرِ شام آج کوئی مِرے دل سے کہہ رہا ہے
کوئی چاند بھی تو نکلے، کوئی جام بھی تو چھلکے

کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں

کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
باصر خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں
حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری
ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں
تُو چاہتا ہے اپنی نئی خوبیوں کی داد
مجھ کو عزیز تیری پرانی خرابیاں

Wednesday 5 April 2017

یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا

یہ سچ ہے، یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا
گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا
جبرِ دلِ بے مہر کا چرچا نہیں ہوتا
تاریکئ شب میں کوئی چہرہ نہیں ہوتا
ہر جذبۂ معصوم کی لگ جاتی ہے بولی
کہنے کو خریدار پرایا نہیں ہوتا

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے
بھولنا خود کو تو آسان ہے بھلا بیٹھا ہوں
وہ ستمگر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے
جسکے باعث ہیں یہ چہرے کی لکیریں مغموم
غیر ممکن ہے کہ منظر وہ دکھایا جائے

تیرا ستم ہم پہ عام دیکھیے کب تک رہے

تیرا ستم ہم پہ عام دیکھیے کب تک رہے
تلخئ دوراں پہ دیکھیے نام کب تک رہے
چھا گئیں تاریکیاں کھو گیا حسنِ نظر
وعدۂ دیدار عام دیکھیے کب تک رہے
اہلِ خِرد سست رو، اہلِ جنوں تیز گام
شوق کا یہ اہتمام دیکھیے کب تک رہے

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے
مل گیا تھا سکوں نگاہوں کو
کی تمنا تو اشک بھر آئے
گل ہی اکتا گئے ہیں گلشن سے
باغباں سے کہو نہ گھبرائے

ڈوبے تو ہلاک ہوۓ ہی نہیں

ڈوبے تو ہلاک ہوے ہی نہیں
ایسے پیراک ہوے ہی نہیں
تِری آنکھ کا کاجل بن تو گئے
تِرے در کی خاک ہوے ہی نہیں
سورج نے آگ لگائی بہت
جنگل تو راکھ ہوے ہی نہیں

آئینہ عکسِ رخ یار کے آ جانے سے

آئینہ عکسِ رخِ یار کے آ جانے سے
دمک اٹھا ہے گرفتار کے آ جانے سے
یک بیک کیسے بدلنے لگے منظر دیکھو
اک ذرا گرمئ رفتار کے آ جانے سے
وہی محفل ہے مگر ہو گئی کیسی بے رنگ
بیچ میں حرفِ دلآزار کے آ جانے سے

گیتوں سے جب بھر جاتا ہوں گانے لگتا ہوں

گیتوں سے جب بھر جاتا ہوں، گانے لگتا ہوں
دیواروں سے اپنا سر ٹکرانے لگتا ہوں
کانٹوں کا ملبوس پہن کر آتا ہوں باہر
اور مٹی پر اپنے پھول بنانے لگتا ہوں
ساری رات بُنا کرتا ہوں ایک سنہرا جال
صبح کے ہوتے ہوتے جال بچھانے لگتا ہوں

لال ہوا فوارہ ہو

لال ہوا فوارہ ہُو
یار نے خنجر مارا ہُو
ہویا میں آوارہ ہُو
کُل عالم بنجارہ ہُو
شام کا پہلا تارہ ہُو
من اندر دوبارہ ہُو

Tuesday 4 April 2017

تو جو نہیں تو پھر مرا کوئی سا حال بھی سہی

تُو جو نہیں تو پھر مِرا کوئی سا حال بھی سہی
موت ہے تو وہی سہی، زیست ہے تو یہی سہی
ایسے لگا کہ چاند ہے، پھر یہ کھلا کہ پھول ہے
پاس تو جا کے دیکھیے، خواب ہے، خواب ہی سہی
بزم سے تھا میں رات الگ، ہے مری چپ کی بات الگ
جس کے جواب میں کہا اس نے کہ پھر کبھی سہی

بجھتے ہوئے تاروں کی فضا ہے مرے دل میں

بجھتے ہوئے تاروں کی فضا ہے مِرے دل میں
پر دِیپ جو مٹی کا جلا ہے مرے دل میں
لوگوں نے حکایات سنی ہوں گی کم و بیش
وہ شہر، وہ خیمے، وہ سرا ہے مرے دل میں
میں راہ سے بھٹکوں تو کھٹکتی ہے کوئی بات
جس طرح کوئی سمت نما ہے مرے دل میں

اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں

اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں
کچھ ستاروں نے یہ ٹھہرائی کہ ہجرت کر جائیں
دہر سے ہم یونہی بے کار چلے جاتے تھے
پھر یہ سوچا، کہ چلو ایک محبت کر جائیں
دولت خواب، ہمارے جو کسی کام نہ آئی
اب کسی کو نہیں ملنے کی، وصیت کر جائیں

Sunday 2 April 2017

آؤ بے پردہ تمہیں جلوۂ پنہاں کی قسم

آؤ بے پردہ تمہیں جلوۂ پنہاں کی قسم 
ہم نہ چھیڑیں گے ہمیں زلفِ پریشاں کی قسم 
چاکِ داماں کی قسم، چاکِ گریباں کی قسم
ہنسنے والے تجھے اس حالِ پریشاں کی قسم
میرے ارمان سے واقف نہیں، شرمائیں گے آپ
آپ کیوں کھاتے ہیں ناحق میرے ارماں کی قسم 

اس مہ جبیں سے آج ملاقات ہو گئی

اس مہ جبیں سے آج ملاقات ہو گئی
بے درد آسمان! یہ کیا بات ہو گئی
آوارگانِ عشق کا مسکن نہ پوچھیے
پڑ رہتے ہیں وہیں پہ جہاں رات ہو گئی
ذکرِ شبِ وصال ہو کیا، قصہ مختصر
جس بات سے وہ ڈرتے تھے وہ بات ہو گئی

کہاں تلک غم دل کو نہ آشکار کروں

نذرِ عقیدت

کہاں تلک غمِ دل کو نہ آشکار کروں
زبان بند رکھوں، صبر اختیار کروں
فسانۂ غمِ دل  پڑھ کے رو رہا ہوں میں
نہیں یہ تاب کہ کچھ عرض حالِ زار کروں
بجائے خامہ مجھے چاہئے زبانِ سرشک
کہ شرحِ سوزِ غمِ روح بےقرار کروں

سمجھتا ہوں میں سب کچھ صرف سمجھانا نہیں آتا

سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں آتا
تڑپتا ہوں مگر اوروں کو تڑپانا نہیں آتا
مِرے اشعار مثلِ آئینہ شفاف ہوتے ہیں
مجھے مفہوم کو لفظوں میں الجھانا نہیں آتا
میں اپنی مشکلوں کو دعوتِ پیکار دیتا ہوں
مجھے یوں عاجزی کے ساتھ غم کھانا نہیں آتا

لے آئے انقلاب سپہر بریں کہاں

لے آئے انقلابِ سپہرِ بریں کہاں
اللہ! ہم کہاں وہ ثریا جبیں کہاں
در ہے نہ آستاں، نہ حرم ہے نہ بتکدہ
یارب! مچل پڑی ہے ہماری جبیں کہاں
سورج کی سب سے پہلی کرن خوشنما سہی
لیکن تِری نظر کی طرح دل نشیں کہاں

Saturday 1 April 2017

دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا

دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
ہر آنکھ برق پاش تھی، ہر ذرہ نور تھا
میری نظر کی آڑ میں ان کا ظہور تھا
اللہ ان کے نور کا پردہ بھی نور تھا
تھی ہر تڑپ سکون کی دنیا ہوئے
پہلو میں آپ تھے، کہ دلِ نا صبور تھا

آپ سے شرح آرزو تو کریں

آپ سے شرحِ آرزو تو کریں
آپ تکلیفِ گفتگو تو کریں
وہ نہیں ہیں جو وہ کہیں بھی نہیں
آئیے دل میں جستجو تو کریں
اہلِ دنیا مجھے سمجھ لیں گے
دل کسی دن ذرا لہو تو کریں

لب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکان داغ

لب منزلِ فغاں ہے، نہ پہلو مکانِ داغ
دل ره گیا ہے نام کو باقی نشانِ داغ
اے عشق! خاکِ دل پہ ذرا مشقِ فتنہ کر
پیدا کر اس زمِیں سے کوئی آسمانِ داغ
دل کچھ نہ تها تمہاری نظر نے بنا دیا
دنیائے درد، عالمِ حسرت، جہانِ داغ

جلوہ گاہ ناز جاناں جب مرا دل ہو گیا

جلوہ گاہِ نازِ جاناں جب مِرا دل ہو گیا
سامنا فانی مجھے دل کا بھی مشکل ہو گیا
مژدۂ تسکیں سے بے تابی کے قابل ہو گیا
دل پہ جب تیری نگاہیں جم گئیں، دل ہو گیا
کر کے دل کا خون کیا بے تابیاں کم ہو گئیں
جو لہو آنکھوں سے دامن پر گرا دل ہو گیا