عشق کا زخم جو منت کشِ مرہم ہوتا
عید کے روز بھی ہر گھر میں محرم ہوتا
ڈر نہ ہوتا جو کہیں عشق میں رسوائی کا
ساتھ عشاق کے اک حلقۂ ماتم ہوتا
آتشِ عشق میں جلنے کا مزا اپنا ہے
ہم تو مر جاتے تڑپ کر غمِ تنہائی سے
سلسلہ آپ کی یادوں کا اگر کم ہوتا
صبر، ایثار، محبت، غمِ دنیا، غمِ دل
سوچتا ہوں کہ مِرا کوئی تو ہمدم ہوتا
مار دیتے غمِ دنیا مجھے اک لمحے میں
کربلا قد میں اگر چھوٹا تیرا غم ہوتا
لشکرِ رنج و مصائب کے مقابل تنہا
کون ہوتا جو نہ مجھ میں کہیں دم خم ہوتا
ہجر آثار ہواؤں سے فراغت کے لیے
کوئی لمحہ کوئی رُت کوئی تو موسم ہوتا
شاعری سے جو الگ ہوتا تعارف ریحان
نامکمل یہ تعارف بڑا مبہم ہوتا
ریحان اعظمی
No comments:
Post a Comment