اس دنیا سے باہر ہو موجود وہ دنیا ممکن ہے
لیکن اس کی خاطر اس کو کھودینا کیا ممکن ہے
ہنستی بستی بولتی دنیا اک سوکھے تالاب سی ہے
زور سے پتھر مار کے جس میں چھینٹ اڑانا ممکن ہے
عین جوانی کے دن میں بچگانے پن کے امکاں ہیں
کوئی میر سے جا کر کہہ دو اس کا تخیل جیت گیا
اب گلیوں میں انسانوں کا خوں میں نہانا ممکن ہے
جتنی راتیں گنوا سکتے تھے، اتنی راتیں گنوائی ہیں
اتنا عشق تو ہم نے کر کے دیکھا، جتنا ممکن ہے
کیسے تیرے گیسو سنواریں، کیسے تیرا ہجر منائیں
ہم کو وہ حالات ملے ہیں، جن میں غزل ناممکن ہے
تصنیف حیدر
No comments:
Post a Comment