Friday, 21 April 2017

اس دنیا سے باہر ہو موجود وہ دنیا ممکن ہے

اس دنیا سے باہر ہو موجود وہ دنیا ممکن ہے
لیکن اس کی خاطر اس کو کھودینا کیا ممکن ہے
ہنستی بستی بولتی دنیا اک سوکھے تالاب سی ہے
زور سے پتھر مار کے جس میں چھینٹ اڑانا ممکن ہے
عین جوانی کے دن میں بچگانے پن کے امکاں ہیں
اور بچپن کے گلیاروں میں عین بڑھاپا ممکن ہے
کوئی میر سے جا کر کہہ دو اس کا تخیل جیت گیا
اب گلیوں میں انسانوں کا خوں میں نہانا ممکن ہے
جتنی راتیں گنوا سکتے تھے، اتنی راتیں گنوائی ہیں
اتنا عشق تو ہم نے کر کے دیکھا، جتنا ممکن ہے
کیسے تیرے گیسو سنواریں، کیسے تیرا ہجر منائیں
ہم کو وہ حالات ملے ہیں، جن میں غزل ناممکن ہے

تصنیف حیدر

No comments:

Post a Comment