Wednesday 30 April 2014

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں

فلمی گیت

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

تُو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے
اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے
تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان، تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا

کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنا

فلمی گیت

کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جانِ تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

یہ رات، یہ برسات، یہ ساون کا مہینا
ایسے میں تو شعلوں کو بھی آتا ہے پسینا
اِس رُت میں غریبوں کی دُعا کیوں نہیں لیتے
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے

فلمی گیت

غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے، تڑپانا بھی آتا ہے

کسی کی یاد میں جو زندگی ہم نے گزاری ہے
ہمیں وہ زندگی اپنی محبت سے بھی پیاری ہے
وہ آئیں روبرو ہم داستاں اپنی سنائیں گے
کچھ اپنا دل جلائیں گے کچھ ان کو آزمائیں گے
سرِ محفل ہمیں تو شمع بن جانا بھی آتا ہے
تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے، تڑپانا بھی آتا ہے

جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ

فلمی گیت

جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
مِل بھی لیتے ہیں وہ گَلے اپنے مطلب کے لیے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ
خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

پریشان رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

فلمی گیت

پریشان رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جائو خیالوں میں
ہمیں یہ رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے
تیری آنکھوں کے ٹُھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے
سبھی رَستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں

ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں
دوڑ رہا ہوں دُنیا کی شریانوں میں
نفرت کی تائید نہیں میں کر سکتا
نام مِرا بھی لکھ لو نافرمانوں میں
باہر تو ہر سُو ہے راج درندوں کا
امن کا ہے ماحول فقط زندانوں میں

نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے

نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے
قتیلؔ میرے سامنے چُرا لیا گیا مجھے
کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں
تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے
براہِ راست رابطہ نہ مجھ سے تھا قبول انہیں
لِکھوا کے خط رقیب سے بُلا لیا گیا مجھے

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو

فلمی گیت

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا، تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جُوڑے میں سجا لے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں، پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چُرا لے مجھ کو

Tuesday 29 April 2014

دل کے معاملات میں سود و زیاں کی بات

دل کے معاملات میں سُود و زیاں کی بات
ایسی ہے جیسے موسمِ گل میں خزاں کی بات
اچھا، وہ باغِ خلد جہاں رہ چکے ہیں ہم​
ہم سے ہی کر رہا ہے تُو زاہد وہاں کی بات
زاہد! ترا کلام بھی ہے با اثر، مگر
پیرِ مغاں کی بات ہے پیرِ مغاں کی بات

دنیا کے جور پر نہ ترے التفات پر

دنیا کے جور پر نہ تِرے التفات پر ​
میں غور کر رہا ہوں کسی اور بات پر ​
دیکھا ہے مسکرا کے جو اس مہ جبیں نے ​
جوبن سا آ گیا ہے ذرا واقعات پر ​
دیتے ہیں حکم خود ہی مجھے بولنے کا آپ ​
پھر ٹوکتے ہیں آپ مجھے بات بات پر ​

میں تیرے حسن سے جس دم نقاب اٹھاؤں گا

میں تیرے حسن سے جس دم نقاب اٹھاؤں گا
تو تیری ایک جھلک تجھ کو بھی دکھاؤں گا
تِرا اثر تو بہت مجھ پہ دیرپا نکلا
مِرا خیال تھا میں تجھ کو بھول جاؤں گا
میں تجھ پہ کس لیے مرتا ہوں کیا خبر مجھ کو
میں جانتا ہی نہیں کچھ تو کیا بتاؤں گا

مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے

مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے ​
نگاہ سے بھی بدن پر نشان پڑتا ہے ​
حرم کا عزم پنپتا نظر نہیں اتا ​
کہ راستے میں صنم کا مکان پڑتا ہے ​
فقیہِ شہر کو جب کوئی مشغلہ نہ ملے ​
تو نیک بخت گلے میرے آن پڑتا ہے ​

میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے

میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے​
ظالم قریب آ کے کسی دن صدا تو دے​
اتنی تو قدر کر میرے حالِ خراب کی​
تفریح کے لیے ہی ذرا مسکرا تو دے​
یہ اور بات ہے کہ محبت نہیں تجھے​
تاہم ستم ظریف محبت جتا تو دے​

Monday 28 April 2014

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو
ہم سناتے ہیں تمہیں اپنی کہانی لوگو
کون تھا دشمنِ جاں وہ کوئی اپنا تھا کہ غیر
ہاں وہی دشمنِ جاں، دلبرِ جانی لوگو
زلف زنجیر تھی ظالم کی تو شمشیر بدن
روپ سا روپ، جوانی سی جوانی لوگو

ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے

ساقیا! ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
نو گرفتارِ وفا! سعئ رہائی ہے عبث
ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے
خوش ہو اے دل! کہ محبت تو نبھا دی تُو نے
لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام سے پہلے پہلے

محبت سے دل کو میں آگاہ کر لوں

محبت سے دل کو میں آگاہ کر لوں
ذرا ٹھہرو! ہلکی سی اک آہ کر لوں
بتاؤ ذرا میرے ہو جاؤ گے تم
میں دل میں تمہارے اگر راہ کر لوں
مزہ چاہ کرنے کا آ جائے مجھ کو
کسی بے وفا سے اگر چاہ کر لوں

عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی

عجیب رُت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں بھی اُداس تھا وہ بھی
کسی کے شہر میں کی گفتگو ہواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی 
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گمان تھا یہ بھی، قیاس تھا وہ بھی

جان محفل ترا انداز سخن جو کچھ ہو

ایک عصرانہ

جانِ محفل ترا اندازِ سخن جو کچھ ہو
تری افتاد، ترے دل کی جلن جو کچھ ہو
تجھ کو آتا ہو ستاروں سے کنایہ کرنا
تُو نے سیکھا ہو خداؤں کو رعایہ کرنا
لفظ کی اوٹ میں کُھلتے ہوں معانی کیا کیا
بات بنتی ہو اشاروں کی زبانی کیا کیا

اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا

اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خود کو خود سے منہا کر کے دیکھوں گا
وہ شعلہ ہے یا چشمہ کچھ بھید کھلے
پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا
کب بچھڑا تھا کون گھڑی تھی یاد نہیں
لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا

Saturday 26 April 2014

ہجر ایسا کوئی آزار نہیں ہونے کا

ہجر ایسا کوئی آزار نہیں ہونے کا
نہیں ہونے کا مِرے یار نہیں ہونے کا
رونے لگتا ہے پسِ چشم کوئی دوسرا بھی
سو میں تجھ غم میں عزادار نہیں ہونے کا
روشنی ساز کوئی آئے تو آئے ورنہ
شب کا منظر شفق آثار نہیں ہونے کا

اس میں تخصیص خاص و عام تو نئیں

اس میں تخصیصِ خاص و عام تو نئیں
دل تو دل ہے کوئی غلام تو نئیں
سب مکینوں کا یوں چلے جانا
اس حویلی کا انہدام تو نئیں
خواب میں اس کا مسکرا دینا
دل دھڑکنے کا انتظام تو نئیں

ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں

ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں
جہانِ ہست و بود میں کسی پہ کچھ کھلا نہیں
حضورِ خواب دیر تک، کھڑا رہا سویر تک
نشیبِ قلب و چشم سے گزر تِرا ہوا نہیں
نظر میں اک چراغ تھا، بدن میں ایک باغ تھا
چراغ و باغ ہو چکے، کوئی رہا؟ رہا نہیں

خواب دیکھا تھا دلنشیں میں نے

خواب دیکھا تھا دلنشیں میں نے
بھر دیئے رنگ ہر کہیں میں نے
کوئی آیا، یہاں، نہیں، شاید
کس کو دیکھا ہے پھر یہیں میں نے
کوئی صورت ابھرتی رہتی ہے
جس کو سوچا ابھی نہیں میں نے

گزشت و رفت کے مابین کیا دیا گیا ہے

گزشت و رفت کے مابین کیا دیا گیا ہے 
نئے غبار کا حصہ بنا دیا گیا ہے
ہمارے خواب ہمارے نہیں رہے مِرے دوست
سو دستِ چشم میں کاسہ تھما دیا گیا ہے
عجیب جنگ ہے چھڑنے سے قبل ہی مجھ کو
مِری شکست کا منظر دکھا دیا گیا ہے

یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری

یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری
جہان آب و گل پر تھی نگہبانی ہماری
مہکتا تھا گھنے پیڑوں سے ویرانہ ہمارا
دمکتی تھی دعا کی لَو سے پیشانی ہماری
ہمارے جسم کے ٹکڑے ہوئے، روندے گئے ہم
مگر زندہ رہی آنکھوں میں حیرانی ہماری

نجانے کون سی وحشت سے بھر گیا ہوں میں

نجانے کون سی وحشت سے بھر گیا ہوں میں
گلِ سفید کو چھوتے ہی ڈر گیا ہوں میں
کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہوں خود کو بھی
تمہاری حد سے نکل کر کدھر گیا ہوں میں
تمام عمر یہی اِک گِلہ رہا خود سے
تمام فیصلے عُجلت میں کر گیا ہوں میں

سفر کی داستاں ہوتے ہوئے بھی

سفر کی داستاں ہوتے ہوئے بھی
زباں چپ ہے زباں ہوتے ہوئے بھی
تمنا ہے کوئی ہو دوست اپنا
ہجومِ دوستاں ہوتے ہوئے بھی
کہاں ہو دیدہ و دل کے مکینو
نہیں ہو تم یہاں ہوتے ہوئے بھی

اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ تیرا ستارہ نہیں

اے مِرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ تیرا ستارہ نہیں
غیر کا ذکر کیا، غیر پھر غیر ہے، جو ہمارا تھا وہ بھی ہمارا نہیں
اے مِرے ہمنشیں! چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزرا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں لگانے سے کیا فائدہ صاف کہہ دو کہ ملنا گورا نہیں

کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں

کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
جفاؤں کے گِلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
تِری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
دھری رہ جائے گی پابندئ زِنداں، جو اب چھیڑا
یہ دربانوں کو سمجھا دو کہ دیوانے بہت سے ہیں

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
چمن میں برق نہیں چھوڑتی کسی صورت
طرح طرح سے بناتا ہوں آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے
حضور! شمع نہ لایا کریں جلانے کو

شیشے دلوں کے گرد تعصب سے اٹ گئے

شیشے دلوں کے گردِ تعصّب سے اٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فِرقوں میں بٹ گئے
اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مِرے ہونٹ پھٹ گئے
بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے
جونہی مِرا مکان گِرا، ابر چَھٹ گئے

آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم

آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مِرا جسم
شاید اسی صورت ہی سکوں پائے مِرا جسم
آغوش میں لے کر مجھے اس زور سے بھینچو
شیشے کی طرح چَھن سے چٹخ جائے مِرا جسم
یا دعوائے مہتابِ تجلّی نہ کرے وہ
یا نُور کی کرنوں سے وہ نہلائے مِرا جسم

چھت کی کڑیاں جانچ لے دیوار و در کو دیکھ لے

چھت کی کڑیاں جانچ لے دیوار و در کو دیکھ لے
مجھ کو اپنانے سے پہلے میرے گھر کو دیکھ لے
چند لمحوں کا نہیں‌ یہ عمر بھر کا ہے سفر
راہ کی پڑتال کر لے، راہبر کو دیکھ لے
اپنی چادر کی طوالت دیکھ کر پاؤں پسار
بوجھ سر پر لادنے سے قبل سر کو دیکھ لے

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے​

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے​
دل پہروں مِرا کرب کے دوزخ میں جلا ہے​
عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا ​
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے ​
ہر اہلِ ہوس جیب میں بھر لایا ہے پتھر​
ہمسائے کی بیری پہ ابھی بُور پڑا ہے​

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
مِرے لیے مِری ہمشیر ماؤں جیسی ہے
بھٹکتا ہوں تو مجھے راستہ دکھاتی ہے
وہ ہمسفر ہے، مگر رہنماؤں جیسی ہے
ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی
فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے

پھینکے تھے اہل شہر نے آسمان پر

پھینکے تھے اہلِ شہر نے آسمان پر
پتھر تمام برسے وہ میرے مکان پر
مشکل میں اس حقیر سی چیونٹی سے لے سبق
گر گر کے آخرش جو چڑھی تھی چٹان پر
میں دھول ہوں تو مجھ کو خلا میں بکھیر دے
میں چاند ہوں تو مجھ کو سجا آسمان پر

Friday 25 April 2014

مرا سوال ہے اے قاتلان شب تم سے

مرا سوال ہے اے قاتلانِ شب تم سے
کہ یہ زمین منوّر ہوئی ہے کب تم سے
چراغ بخشے گئے شہرِ بے بصارت کو
یہ کارِ خیر بھی سرزد ہوا عجب تم سے
مرے خطاب کی شدّت پہ چیخنے والو
تمہارے لہجے میں گویا ہوا ہوں اب تم سے

یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے

یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے
کہ آج روند کے گزرا ہے میرا سایہ مجھے
میں جیسے وقت کے ہاتھوں میں اک خزانہ تھا
کسی نے کھو دیا مجھ کو، کسی نے پایا مجھے
اک آرزو کے تعاقب میں یوں ہوا ہے نبیلؔ
ہوا نے ریت کی پلکوں پہ لا بٹھایا مجھے

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں
سرائے درد میں ڈیرہ جمائے بیٹھا ہوں
نبیلؔ ریت میں سِکّے تلاش کرتے ہوئے
میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں
جو لوگ درد کے گاہک ہیں سامنے آئیں
ہر ایک زخم سے پردہ اٹھائے بیٹھا ہوں

اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے

اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے
خیال شعر میں ڈھلتے ہوئے جھجک رہے تھے
نہ جانے کس کے قدم چُومنے کی حسرت میں
تمام راستے دل کی طرح دھڑک رہے تھے
کوئی جواب نہ سورج میں تھا نہ چاند کے پاس
مرے سوال سرِ آسماں چمک رہے تھے

جستجو حیران بازاروں کے بیچ

جستجو حیران بازاروں کے بیچ
کھو گئے ہیں راستے کاروں کے بیچ
تنگ ہوتی جا رہی ہے یہ زمیں
سر نکل آئے ہیں دیواروں کے بیچ
ہر طرف آلودگی ماحول میں
جنگ چھڑ جائے نہ سیّاروں کے بیچ

Thursday 24 April 2014

مریض محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دم نکلتے نکلتے

مریضِ محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دَم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بُجھ گیا جلتے جلتے
انہیں خط میں لکھا تھا دلِ مُضطرب ہے جواب ان کا آیا، محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا، بہل جائے گا دل، بہلتے بہلتے
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے، دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے

نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی

نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی
بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی
خدائی کی ہے یہ ضد اے بت یہ نادانی نہیں جاتی
زبردستی کی منوائی ہوئی مانی نہیں جاتی
ہزاروں بار مانی حُسن نے ان کی وفاداری
مگر اہلِ محبت ہیں کہ قربانی نہیں جاتی

کس یاس سے مرے ہیں مریض انتظار کے

کِس یاس سے مرے ہیں مریض اِنتظار کے
قاتل کو یاد کر کے، قضا کو پُکار کے
مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار کے
تم اپنے گھر کو جاؤ چُھری پھیر پھار کے
رُکتی نہیں ہے گردشِ ایّام کی ہنسی
لے آنا طاق سے مِرا ساغر اُتار کے

تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں

تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں
اِدھر تُو کھائے جاتا ہے، اُدھر وہ کھائے جاتے ہیں
چمن والوں سے جا کر نسیمِ صبح کہہ دینا
اسِیرانِ قفس کے آج پَر کٹوائے جاتے ہیں
کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے
بڑی مشکل سے دیوانے تیرے دفنائے جاتے ہیں

سکوں بہر محبت میں ہمیں حاصل تو کیا ہو گا

سکوں بہر محبت میں ہمیں حاصل تو کیا ہو گا
کوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہو گا
ترے کہنے سے تیرا نام بھی لوں گا محشر میں
مگر مجھ سے اگر پوچھا گیا قاتل تو کیا ہو گا
قفس سے چھوٹ کر صیاد دیکھ آئینگے گلشن بھی
ہمارا آشیاں رہنے کے اب قابل تو کیا ہو گا

Wednesday 23 April 2014

اولیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو

اولیں چاند نے کیا بات سُجھائی مجھ کو
یاد آئی تری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوانِ طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو

یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا

یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا 
ستم تو یہ ہے کہ کہتا ہے، جا، نہیں کرتا
طلوعِ عارض و لب تک میں صبر کرتا ہوں
سو منہ اندھیرے غزل اِبتدا نہیں کرتا 
یہ شہر ایسے حریصوں کا شہر ہے کہ یہاں
فقیر بھیک لیے بِن دُعا نہیں کرتا

خلقت شہر بھلے لاکھ دھائی دیوے

خلقتِ شہر بھلے لاکھ دُھائی دیوے 
قصرِ شاہی کو دکھائی نہ سُنائی دیوے 
عشق وہ ساتویں حِس ہے کہ عطا ہو جس کو
رنگ سُن جاویں اُسے، خوشبو دکھائی دیوے
ایک تہ خانہ ہوں میں اور مرا دروازہ ہے تُو 
جُز ترے کون مجھے مجھ میں رسائی دیوے

کبھی وہ وقت نہ آئے جو تجھ کو راس نہ ہو

کبھی وہ وقت نہ آئے جو تجھ کو راس نہ ہو 
خُدا کرے کہ ترا دِل کبھی اُداس نہ ہو
رہے نہ تشنۂ تعبیر کوئی خواب ترا
کوئی کسک نہ ہو، کوئی ادھوری آس نہ ہو
ہمیشہ لُطف و طرب ترے اِرد گرد رہیں 
کوئی بھی لمحۂ غم تیرے آس پاس نہ ہو

آنکھوں کے دریچوں سے دھڑکن میں اتر آئی

آنکھوں کے دریچوں سے دھڑکن میں اُتر آئی 
دل جیسی کوئی صورت دِلی میں نظر آئی
پہلے تو اُداسی سے دھندلائی رہیں آنکھیں 
پھر آئے نظر غالب، اور شام نکھر آئی
رات آئی تو کوچوں میں تھیں میر کی آوازیں
پھر آنکھ کہاں جھپکی، پھر نیند کدھر آئی 

غم چھایا رہتا ہے دن بھر آنکھوں پر

غم چھایا رہتا ہے دِن بھر آنکھوں پر 
فارسؔ! اُس کے نام کا دَم کر آنکھوں پر 
جب دیکھو پلکیں جھپکاتا رہتا ہے 
اِتنا بھی اِترایا مت کر آنکھوں پر 
کہیے تو جی لیں، کہیے تو مر جائیں 
صاحب! آپ کی سب باتیں سر آنکھوں پر

Sunday 20 April 2014

اک شب میں عمر بھر کا ارادہ بدل گیا

اک شب میں عمر بھر کا ارادہ بدل گیا 
وقتِ سفر، سفر کا ارادہ بدل گیا
سہواً پڑی تھی اس رُخِ روشن پر اک نظر   
پھر یوں ہوا نظر کا ارادہ بدل گیا 
موجِ ہوا کے ساتھ میں جنگل تک آ گیا 
بارش ہوئی تو گھر کا ارادہ بدل گیا

ہر گھڑی خاک سے تیار نکلنے کے لئے

ہر گھڑی خاک سے تیار نکلنے کے لئے
منتظر ہے کوئی شہکار نکلنے کے لئے
عکس آئینے سے ہر بار یہی کہتا ہے
راستہ ہے کوئی اس پار نکلنے کے لئے
آنکھ تک کتنے مراحل سے گزرتا ہو گا
دل سے اک اشکِ گراں بار نکلنے کے لئے

Saturday 19 April 2014

اپنے سائے کی رفاقت سے بھی کتراتا ہے

اپنے سائے کی رفاقت سے بھی کتراتا ہے
یوں بھی صحرا میں کوئی آبلہ پا آتا ہے
آنکھ کھلتی ہے تو رِستا ہے لہو پوروں سے
خواب میں ہاتھ کسی شاخ تلک جاتا ہے
دیکھے دیکھے سے مناظر ہیں جنہیں دیکھتا ہوں
وقت میرے ہی کسی خواب کو دُہراتا ہے

کہیں عمر کے کسی باب میں نہیں آئے گا

کہیں عمر کے کسی باب میں نہیں آئے گا
جو بچھڑ گیا ہے وہ خواب میں نہیں آئے گا
وہ جو حرف طاقِ نگاہ سے نہ اتر سکا
وہ جو حرف دل کی کتاب میں نہیں آئے گا
وہی ایک پل، وہ جو حاصلِ زرِ عمر ہے
وہی ایک پل جو حساب میں نہیں آئے گا

کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے

کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے
یہ رات صدیوں سے میرے سینے پہ چل رہی ہے
ہمارا جانا ہے اور سب کچھ ہے ڈوب جانا
یہ زندگی تو ہمارے جینے پہ چل رہی ہے
رواں ہے موجِ جنوں پہ احساس کا سفینہ
اور ایک تہذیب اس سفینے پہ چل رہی ہے

Thursday 17 April 2014

قتل عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ

قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ
میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ
ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ

جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے

جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے
کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے
اب اک ہجومِ شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نہ ملا، ہمسفر ہمارے ہوئے

غیر سے تیرا آشنا ہونا

غیر سے تیرا آشنا ہونا
گویا اچھا ہوا برا ہونا
خودنگوں سار، ہمسفر بیزار
اک ستم ہے شکستہ پا ہونا
کتنی جانکاہ ہے ضمیر کی موت
کتنا آساں ہے بےوفا ہونا

اگر تو آگ پر چلتے ہوئے صحرا کے پار آتا

اگر تُو آگ پر چلتے ہوئے صحرا کے پار آتا
تو تیرے راستے میں ہم شہیدوں کا مزار آتا
مجھے جنت سے سیدھا بھیج دینا تھا جہنم میں
کم از کم یہ تو رَستے میں نہ دنیا کا غبار آتا
ہماری بے بسی نے بے یقینی تھام رکھی ہے
ذرا سا اختیار آتا تو تم پر اعتبار آتا

جب سلسلۂ قیدِ سلاسل کہیں نہ تھا

جب سلسلۂ قیدِ سلاسل کہیں نہ تھا
رہبر کوئی بھی رہروئے منزل کہیں نہ تھا
نظروں کے ساتھ ہی کسی جانب نکل گیا
پورے بدن میں ڈھونڈا، مگر دِل کہیں نہ تھا
خالی پڑے تھے سب مرے صندوق جرم کے
اتنے برس میں عمر کا حاصل کہیں نہ تھا

مصر ہے دکان اپنی

مصر ہے دُکان اپنی

خوشبوئیں بھی بِکتی ہیں
پھول بھی بِکاؤ ہیں
لفظ بھی ہیں بازاری
دل لگی بھی صنعت ہے
جنس ہے محبت بھی
اپنی اپنی قیمت ہے

گزشتہ شب جو ہستی برفرازِ دار تھی میں تھا

گزشتہ شب جو ہستی بر فرازِ دار تھی، میں تھا
پھر اگلے دن جو سُرخی شوکتِ اخبار تھی، میں تھا
وہاں کچھ لوگ تھے، الزام تھے، باقی اندھیرا ہے
بس اتنا یاد ہے جلاد تھا،. تلوار تھی،. میں تھا
جہاں تصویر بنوانے کی خاطر لوگ آتے تھے
وہاں پس منظرِ تصویر جو دیوار تھی، میں تھا

قطرہ قطرہ نچوڑ کر رکھ دو

قطرہ قطرہ نچوڑ کر رکھ دو
میرے سینے پہ میرا سر رکھ دو
ہم سے بس زندگی نے اتنا کہا
نیزۂ حُسن پر جگر رکھ دو
رجعتِ دائمی کے قدموں میں
کاٹ کر اپنے بال و پَر رکھ دو

Wednesday 16 April 2014

پھر وہی بے دلی پھر وہی معذرت

پھر وہی بے دلی، پھر وہی معذرت
بس بہت ہو چکا، زندگی! معذرت
خود کلامی سے بھی رُوٹھ جاتی ہے تُو
اب نہ بولوں گا اے خامشی! معذرت
داد، بے داد میں جی نہيں لگ رہا
دوستو! شکريہ، شاعری! معذرت

کشت امید بارور نہ ہوئی

کشتِ امید باروَر نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہوئی
ہم مسافر تھے دھوپ کے، ہم سے
ناز بردارئ شجر🌴 نہ ہوئی
مجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف
سب نے دیکھا، مِری نظر نہ ہوئی

اک بت مجھے بھی گوشۂ دل میں پڑا ملا

اِک بُت مجھے بھی گوشۂ دل میں پڑا مِلا
واعظ کو وہم ہے کہ اسی کو خدا ملا
حیرت ہے، اس نے اپنی پرستش ہی کیوں نہ کی
جب آدمی کو پہلے پہل آئینہ ملا
خورشیدِ زندگی کی تمازت غضب کی تھی
تُو راہ میں ملا تو شجر کا مزا ملا

تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی

تازہ ہوا بہار کی، دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقۂ گردش حال لے گئی
جرأتِ شوق کے سوا، خلوتیانِ خاص کو
اِک تیرے غم کی آگہی، تا بہ سوال لے گئی
شعلۂ دل بُجھا بُجھا، خاک زباں اُڑی اُڑی
دشتِ ہزار دام سے، موجِ خیال لے گئی

صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں

صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں​
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں ​
یہ شاخِ گل ہے، آئینِ نمو سے آپ واقف ہے ​
سمجھتی ہے، کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں​
کبھی تیری، کبھی دستِ جنوں کی بات چلتی ہے​
یہ افسانے تو زُلفِ خم بہ خم ہوتے ہی رہتے ہیں ​

نم خوردہ بہت شعلہ جاں ہے کہ نہیں ہے

نم خوردہ بہت شعلۂ جاں ہے کہ نہیں ہے
ہر موجِ نفس آج دھواں ہے کہ نہیں ہے
نازک ہیں بہت اس کے خط و خال کی باتیں
محضر بھی کوئی پردگیاں ہے کہ نہیں ہے
احوال بھی پوچھا تو حریفانِ جنوں نے
اب داد طلب وحشتِ جاں ہے کہ نہیں ہے

کیا ہوئے باد بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ

کیا ہوئے، باد بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ
چاک در چاک، گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ
خوں ہوا دل، کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی، کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ
یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے
جو بتکدے میں تھے وہ صاحبانِ کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

 گیت


انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

کیسی انوکھی بات رے


تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا

من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا

جی کا حال سمجھ نہیں آتا

کچھ یادگار شہر ستمگر ہی لے چلیں

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی لے چلیں

جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے

جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے
اے دل! قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے
ذرے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے
پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں
یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے، نہ گئے
کیا پزیرائی ہو اُن کی جو بلائے نہ گئے
اب وہ نیندوں کا اجڑتا تو نہیں دیکھیں گے
وہی اچھے تھے جنہیں خواب دکھائے نہ گئے
رات بھر میں نے کھلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چرائے نہ گئے

زندگی پر کتاب لکھوں گی

زندگی پر کتاب لکھوں گی
اس میں سارے حساب لکھوں گی
پیار کو وقت گزاری لکھ کر
چاہتوں کو عذاب لکھوں گی
ہوئی برباد محبت کیسے
کیسے بکھرے ہیں خواب لکھوں گی

متاع قلب و جگر ہیں ہمیں کہیں سے ملیں

متاعِ قلب و جگر ہیں، ہمیں کہیں سے ملیں
مگر وہ زخم جو اُس دستِ شبنمیں سے ملیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے ملیں
میں اِس وصال کے لمحے کا نام کیا رکھوں
تِرے لباس کی شِکنیں تری جبیں سے ملیں

Monday 14 April 2014

تجھ غمزہ خوں ریز سوں لڑ کون سکے گا

تجھ غمزہ خوں ریز سوں لڑ کون سکے گا
تجھ ناز ستم گر سوں جھگڑ کون سکے گا
پھرتی ہیں سیہ مست ہو شمشیر نظر لے
بن نیند اس انکھیاں کو پکڑ کون سکے گا
دریائے برہ غم میں مجھے ہے یونس دن
اس بحر میں دل باج سو پڑ کون سکے گا

خوب رو خوب کام کرتے ہیں

خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
دیکھ خوباں کو وقت ملنے کے
کس ادا سوں سلام کرتے ہیں
کیا وفادار ہیں کہ ملنے میں
دل سوں سب رام رام کرتے ہیں

یاد کرنا ہر گاہ اس یار کا

یاد کرنا ہر گاہ اس یار کا
ہے وظیفہ مجھ دلِ بیمار کا
آرزوئے چشمۂ کوثر نہیں
تشنہ لب ہوں شربتِ دیدار کا
عاقبت کیا ہووے گا معلوم نہیں
دل ہوا ہے مبتلا دلدار کا

عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا

عیاں ہے ہر طرف عالمِ میں حُسنِ بے حجاب اُس کا
بغیر از دیدۂ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا
ہوا ہے مجھ پہ شمع بزمِ یک رنگی سوں یوں روشن
کہ ہر ذرے اُپر تاباں ہے دائم آفتاب اس کا
کرے ہے عشاق کو جیوں صورت دیوار حسرت سوں
اگر پردے سوں وا ہووے جمالِ بے حجاب اس کا

میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں

میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں
تیری نگاہ کا جب سوں دیوانہ ہو رہا ہوں
ای آشنا کرم سوں یک بار آ درس دے
تجھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہو رہا ہوں
باتاں لگن کی مت پوچھ اے شمع بزمِ خوبی
مدت سے تجھ جھلک کا پروانہ ہو رہا ہوں

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا
دی حق نے تجھے بادشہی حُسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا
تعریف ترے قد کی الف دار، سری جن
جا سروِ گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

کافی ہاؤس میں دن بھر بیٹھے کچھ دبلے پتلے نقاد

کافی ہاؤس

کافی ہاؤس میں دن بھر بیٹھے، کچھ دُبلے پتلے نقاد
بحث یہی کرتے رہتے ہیں، سست ادب کی ہے رفتار
صرف ادب کے غم میں غلطاں، چلنے پھرنے سے لاچار
چہروں سے ظاہر ہوتا ہے، جیسے برسوں کے بیمار
اردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر، میرؔ و غالبؔ، آدھا جوشؔ
یا اِک آدھ کسی کا مصرعہ، یا اقبالؔ کے چند اشعار

یہ وزیران کرام

یہ وزیرانِ کرام

کوئی ممنونِ فرنگی، کوئی ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو! اس ذلّت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا

جب شام سفر تاریک ہوئی وہ چاند ہویدا اور ہوا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

جب شامِ سفر تاریک ہوئی، وہ چاند ہویدا اور ہوا​
منزل کی لگن کچھ اور بڑھی، دل زمزمہ پیرا اور ہوا​
جب کُہر فضاؤں پر چھائی، جب صورتِ فردا دھندلائی​
منظر منظر سے جلوہ فشاں وہ گنبدِ خضرا اور ہوا​
ہر حال میں ان کی موجِ کرم تھی چارہ گرِ ادبار و الم​
حد سے گزری جب تلخئ غم، لطفِ شہِ بطحاﷺ اور ہوا​

رموز عشق و محبت تمام جانتا ہوں

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام عالی مقام

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
حسینؑ ابنِ علیؑ کو امام جانتا ہوں
انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں
میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

خوشبو ہے دو عالم میں تِری اے گُلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تِرے اوصافِ حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم🗺 کا جریدہ
اے ہادئ برحقﷺ! تِری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے تِرے لب سے شنیدہ

حمد کب آدمی کے بس میں ہے

حمد باری تعالیٰ

حمد کب آدمی کے بس میں ہے
ایک حسرت نفس نفس میں ہے
فکر کیا سوچ کر ہے بال کشا
جس کی پرواز ہی قفس میں ہے
دو جہاں جس کے تابعِ فرماں
کب کسی کی وہ دسترس میں ہے

زندگی کو سنبھال کے رکھنا

زندگی کو سنبھال کے رکھنا
تلخیوں کو نکال کے رکھنا
یہ تو اچھا نہیں تمہارے لئے
دل میں ہر غم کو پال کے رکھنا
ساری دنیا کے روبرو اپنے
تجربوں کو کھنگال کے رکھنا

حوصلوں کے نہ بال و پر دیکھو

حوصلوں کے نہ بال و پر دیکھو
آ کے اب تم میرا جگر دیکھو
رات بھر جاگتے رہے ہو تم
کیسے ہوتی ہے اب سحر دیکھو
تم کو فرصت کبھی جو مل جائے
اپنے بارے میں سوچ کر دیکھو

ہم نے سکون دل کی ناکام آرزو کی

ہم نے سکونِ دل کی ناکام آرزو کی
اس شہر بیکراں میں کس شے کی جستجو کی
اِک بار چاک ہو تو دامن کو سی بھی لیں گے
سو بار چاک ہو تو تجویز کیا رفو کی
حد سے سوا غموں نے تڑپا دیا تو دِل نے
گھرآ کے زندگی سے مرنے کی آرزو کی

اردو زباں کے حسن پہ قربان جاؤ تم

اردو زباں کے حُسن پہ قربان جاؤ تم

اردو زباں کی گود میں آرام پاؤ گے
آرام کیا ہے دوستو الہام پاؤ گے
خدمت کرو زبان کی انعام پاؤ گے
نسبت سے اس کی تم بھی تو کچھ نام پاؤ گے
اردو تمہاری جان ہے یوں جان جاؤ تم
اے بھائیو! یہ بات میری مان جاؤ تم

سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی

سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی
چپ کیوں ہے پرندوں کی صدا کیوں نہیں آتی
گل کِھلنے کا موسم ہے تو پھر کیوں نہیں کِھلتے
خاموش ہیں کیوں پیڑ، صبا کیوں نہیں آتی
بے خواب کواڑوں پہ ہوا دیتی ہے دستک
سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کیوں نہیں آتی

خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم

خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرے سو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرمِ عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم

بدل چکی ہے ہر اک یاد اپنی صورت بھی

بدل چکی ہے ہر اِک یاد اپنی صورت بھی
وہ عہدِ رفتہ کا ہر خواب ہر حقیقت بھی
کچھ اُن کے کام نکلتے ہیں دشمنی میں مری
میں دشمنوں کی ہمیشہ ہوں ضرورت بھی
کسی بھی لفظ نے تھاما نہیں ہے ہاتھ مِرا
میں پڑھ کے دیکھ چُکی آخری عبارت بھی

سوکھے ہونٹ سلگتی آنکھیں سرسوں جیسا رنگ

سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ
ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسے ڈھنگ
تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ

بسے ہوئے تو ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں

بسے ہوئے تو ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں
کچھ ایسے شہر ہیں جن کی فصیل کوئی نہیں
کسی سے کس طرح انصاف مانگنے جاؤں
عدالتیں تو بہت ہیں، عدیل کوئی نہیں
سبھی کے ہاتھوں پہ لکھا ہے ان کا نام و نسب
قبیل دار ہیں سب، بے قبیل کوئی نہیں

تم سے رخصت طلب ہے مل جاؤ

تم سے رخصت طلب ہے، مل جاؤ
کوئی اب جاں بہ لب ہے، مل جاؤ
لوٹ کر اب نہ آ سکیں شاید
یہ مسافت عجب ہے، مل جاؤ
دل دھڑکتے ہوئے بھی ڈرتا ہے
کتنی سنسان شب ہے، مل جاؤ

ہر بات شریعت ہے کہ نہیں ہر سانس عبادت ہے کہ نہیں

ہر بات شریعت ہے کہ نہیں ہر سانس عبادت ہے کہ نہیں
کیا جانے تِرے دیوانے کو عرفانِ محبت ہے کہ نہیں
دوزخ کی کہانی بھی سچی، جنت کے فسانے بھی برحق
لیکن کوئی واعظ سے پوچھے، دنیا بھی حقیقت ہے کہ نہیں
ہنگامِ سحر ہے، ہر غنچہ شبنم سے نکھرتا جاتا ہے
میں سوچ رہا ہوں آنکھوں میں اشکوں کی ضرورت ہے کہ نہیں

چمن کے غنچوں نے رنگ بدلا فلک کے تاروں نے ساتھ چھوڑا

چمن کے غنچوں نے رنگ بدلا فلک کے تاروں نے ساتھ چھوڑا
میں جن سہاروں سے مطمئن تھا انہی سہاروں نے ساتھ چھوڑا
خود اہلِ کشتی کی سازشیں ہیں، کہ ناخدا کی نوازشیں ہیں
وہیں تلاطم کو ہوش آیا، جہاں کناروں نے ساتھ چھوڑا
نہ خُم سلامت نہ جام باقی، جُھکی جُھکی ہے نگاہِ ساقی
نیازمندوں نے آنکھ بدلی، وفاشعاروں نے ساتھ چھوڑا

الٹ جاتے ہیں خم گردش میں پیمانہ نہیں رہتا

اُلٹ جاتے ہیں خُم، گردش میں پیمانہ نہیں رہتا
تمہارے بعد مے خانہ بھی مے خانہ نہیں رہتا
چمن سے دُور رہ کر بھی بہل سکتے ہیں دیوانے
کہ راس آ جائے ویرانہ، تو ویرانہ نہیں رہتا
ہماری خامشی اے دوست! افسانہ سہی، لیکن
زباں بہکے، تو افسانہ بھی افسانہ نہیں رہتا

کیسی رندوں کی طبیعت، کیسا پیمانوں کا رخ

کیسی رِندوں کی طبیعت، کیسا پیمانوں کا رُخ
گردشِ دوراں بدل دیتی ہے مے خانوں کا رُخ
ہم نے گلزاروں میں بھی دیکھی ہے خاک اڑتی ہوئی
ایک ہی جانب نہیں رہتا بیابانوں کا رُخ
عاشقوں کے جھمگٹے ہیں تیری بزمِ ناز تک
شمع بُجھتے ہی بدل جاتا ہے پروانوں کا رُخ

Sunday 13 April 2014

سن اے حکیم ملت و پیغمبر نجات

سُن اے حکیمِ مِلت و پیغمبرِ نجات
میرے دیارِ قلب میں کعبہ نہ سومنات
اک پیشہ عشق تھا سو عوض مانگ مانگ کر
رسوا اسے بھی کر گئی سوداگروں کی ذات
ڈرتا ہوں یوں کہ سچ ہی نکلتے ہیں بیشتر
اس کاروبارِ شوق میں دل کے توہمات

سحر جیتے گی یا شام غریباں، دیکھتے رہنا

سحر جیتے گی یا شامِ غریباں، دیکھتے رہنا
یہ سر جھکتے ہیں یا دیوارِ زنداں، دیکھتے رہنا
ہر اک اہلِ لہو نے بازئ ایماں لگا دی ہے
جو اب کی بار ہو گا وہ چراغاں دیکھتے رہنا
ادھر سے مدعی گزریں گے ایقانِ شریعت کے
نظر آ جائے شاید کوئی انساں، دیکھتے رہنا

نفس کو فکر جوہر ہے، جہاں میں ہوں

نفس کو فکرِ جوہر ہے، جہاں میں ہوں
سمندر ہی سمندر ہے، جہاں میں ہوں
بجھی جاتی ہیں قندیلیں توہم کی
طلوعِ عقلِ خاور ہے، جہاں میں ہوں
نظر آتی ہے اپنی ماہیت جس میں
وہ آئینہ میسر ہے، جہاں میں ہوں

غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ

غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ
پہنچے سرِ صلیب فقط بے نشان لوگ
اخلاقیاتِ عشق میں شامل ہے یہ نیاز
ہم ورنہ عادتاً ہیں بڑے خود گمان لوگ
چھوٹی سی اک شراب کی دُکان کی طرف 
گھر سے چلے ہیں سُن کے عشا کی اذان لوگ

Friday 11 April 2014

تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مرے دوست

تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مِرے دوست
کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانہ مرے دوست
جانے کس کام میں مصروف رہا برسوں تک
یاد آیا ہی نہیں تجھ کو بھلانا مرے دوست
پوچھنا مت کہ یہ کیا حال بنا رکھا ہے
آئینہ بن کے مرا دل نہ دکھانا مرے دوست

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر میرے رتجگوں کا شہر
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی
لوگوں میں میرے لوگ وہ دلداریوں کے لوگ
بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی

زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری

زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری
تجھ سے کیا کہتے، تیرے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رَو میں گزرا
شام آئی، تو کوئی خواب دکھاتے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ بس ناز اُٹھاتے گزری

درد ہوتا رہا سوا اور میں

درد ہوتا رہا سوا، اور میں
تھا اکیلا مرا خُدا، اور میں
ترےآنے پہ کھِل اُٹھیں گے سبھی
پھول، خوشبو، چمن، صبا اور میں
ایک مُدٌت سے منتظر ہیں ترے
رات، آنکھیں، یہ دل، دیا اور میں

لوگوں سے کچھ بھید چھپانے پڑتے ہیں

لوگوں سے کچھ بھید چُھپانے پڑتے ہیں
 درد کے کس کس دیس ٹھکانے پڑتے ہیں
سوئے رہنے میں بھی حکمت ہے پیارے
جاگو تو پھر خواب سُلانے پڑتے ہیں 
البم کھول کے دیکھا تو احساس ہوا
کیسے کیسے لوگ بھلانے پڑتے ہیں

اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے

اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے 
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے 
سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہو گا 
لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے 
شدّتِ کرب میں ہنسنا تو کرب ہے میرا 
ہاتھ ہی سخت ہے زنجیر کہاں ڈھیلی ہے 

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو
دوری، آگ سے دوری بہتر قربت کا انجام ہے راکھ
آگ کا کام فروزاں ہونا راکھ ضرور پریشاں ہو
سودا عشق کا سودا ہم جان کے جی کو لگایا ہے
عشق یہ صبر و سکوں کا دشمن پیدا ہو یا پنہاں ہو

پس گرد جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے

پسِ گرد جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے
جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی
کبھی راویانِ خبر زدہ، پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے
یہ گلو گرفتہ و بستۂ رسنِ جفا، مِرے ہم قلم
کبھی جابروں کے دلوں میں خوفِ مکالمہ بھی تو دیکھتے

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دوں گا

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دوں گا
مجال کیا، کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دوں گا
تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دوں گا

صیاد کی مرضی ہے کہ اب گل کی ہوس میں

صیاد کی مرضی ہے کہ اب گُل کی ہوس میں
نالے نہ کریں مُرغ گرفتارِ قفس میں
ایک وقت میں تھی نالۂ مجنوں سے ہم آواز
اب تک ہے اثر اس لیے آواز جَرَس میں
اِس ملنے سے ہو دل کو بھلا کیونکہ تسلی
ایک بار کہیں چھپ کے ملے لاکھ برس میں

ماتھے پہ پھبن پھول سے ہونٹوں پہ تبسم

ماتھے پہ پھبن، پھول سے ہونٹوں پہ تبسم
رخسار کے دریا میں ہے جلووں کا تلاطم
افکار میں نُدرت ہے تو لفظوں میں ترنم
لہجے میں تحمل ہے تو باتوں میں تحکم
مہکائے ہوئے بزم کو عنبر دہنی ہے
کیا گُل بدنی، گُل بدنی، گُل بدنی ہے

دل خوں ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے

دل خوں ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدۂ تر سے
کچھ دیر تو اس قلبِ شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاؤ اِس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حُدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے

عجزِ خاکساری کیوں فخرِ کج کلاہی کیا

عجزِ خاکساری کیوں فخرِ کج کلاہی کیا
جب محبتیں کی ہیں پھر کوئی گواہی کیا
ہم رُتوں کے مجرم ہیں پر ہوا کی نظروں میں
تیری پارسائی کیا، میری بے گناہی کیا
وصل کا کوئی لمحہ رائیگاں نہیں لیکن
جو الگ نہ کرتا ہو ایسا راستہ ہے کیا

بجھنے لگ جائیں تو پھر شمعیں جلا دی جائیں

بجھنے لگ جائیں تو پھر شمعیں جلا دی جائیں
 مِری آنکھیں، مِرے دشمن کو لگا دی جائیں
بے ہنر لوگ کہاں، حرف کی سچائی کہاں
اب کتابیں کسی دریا میں بہا دی جائیں
ان کی پہچان کا دکھ جاں سے گزر جاتا ہے
یہ شبیہیں سرِ آئینہ گنوا دی جائیں

پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اترا

پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اُترا
نیند کی جھیل پہ اِک خواب پرانا اترا
آزمائش میں کہاں عشق بھی پورا اترا
حسن کے آگے تو تقدیر کا لِکھا اترا
دھوپ ڈھلنے لگی، دیوار سے سایہ اترا
سطح ہموار ہوئی، پیار کا دریا اترا

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل🎕 نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح
ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح

جانچ پرکھ کر دیکھ چکی تو ہر منہ بولے بھائی کو

جانچ پرکھ کر دیکھ چکی تُو ہر منہ بولے بھائی کو
 کہنے دے اب کوئی سچی بات قتیلؔ شفائی کو 
کر دیا بالکل اپنے جیسا مجھ کو اندھے کیوپڈ نے
 اپنی شہرت جان رہا ہوں میں اپنی رُسوائی کو
شہرت چاہے کیسی بھی ہو، لوگ توجہ دیتے ہیں 
 لاکھ حسیں ملتے ہیں اب تک مجھ جیسے ہرجائی کو

تیری راہوں میں بھٹکنے کے لیے زندہ ہوں

تیری راہوں میں بھٹکنے کے لیے زندہ ہوں
میں ازل سے ہی تِرے حُسن کا جویندہ ہوں
تیرے دل کی بھی نہ مل پائی مجھے شہریت
کس سے پوچھوں کہ میں کس ملک کا باشندہ ہوں
بھا گئے تھے تیری آنکھوں کے سمندر جن کو
میں اُنہی ڈُوبنے والوں کا نُمائندہ ہوں

چوٹ گہری لگی زخم آئے بہت

چوٹ گہری لگی، زخم آئے بہت 
اب کے یوں تھا کہ ہم مسکرائے بہت 
جس نے پردیس میں یاد رکھا مجھے 
مجھ کو اس کا پتا بھول جائے بہت 
ہر نئے عشق کا اپنا معیار تھا 
تجربے ہم نے بھی آزمائے بہت 

راحت دل متاع جاں ہے تو

راحتِ دل، متاعِ جاں ہے تُو
اے غمِ دوست جاوداں ہے تُو
آنسوؤں پر بھی تیرا سایہ ہے
دھوپ کے سر پہ سائباں ہے تُو
دِل تیری دسترس میں کیوں نہ رہے
اِس زمیں پر تو آسماں ہے تُو

زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا

زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا 
یہ حالِ دل تھا تو کیا حالِ دل کہا جاتا
حیرت میں ہوں کہ سارا جہاں ہے سحر زدہ 
جو دیکھتا تھا اُسے دیکھتا چلا جاتا
وفا کا نام ہے ناکامئِ محبت سے
وگرنہ کُوئے ہوس تک یہ سلسلہ جاتا

رات اور چاند میں جب سرگوشی ہوتی ہے

رات اور چاند میں جب سرگوشی ہوتی ہے
یاد سے دل کی ہم آغوشی ہوتی ہے
اپنا گھر چھوڑا یا اس کا در چھوڑا
اس کے بعد تو خانہ بدوشی ہوتی ہے
بوجھ وفا کا ہم نے اٹھایا یا تم نے
ہمسفروں میں یہ ہمدوشی ہوتی ہے

اک ذرا دل کے قریب آؤ تو کچھ چین پڑے

اِک ذرا دل کے قریب آؤ تو کچھ چین پڑے
جام کو جام سے ٹکراؤ تو کچھ چین پڑے
بیٹھے بیٹھے تو ہر موج سے دل دِہلے گا
بڑھ کے طوفان سے ٹکراؤ تو کچھ چین پڑے
جی اُلجھتا ہے نغمۂ رنگیں سُن کر
گیت ایک درد بھرا گاؤ تو کچھ چین پڑے

ماحول سازگار کرو میں نشے میں ہوں

ماحول سازگار کرو، میں نشے میں ہوں
ذکر نگاہِ یار کرو، میں نشے میں ہوں
اے گردشو! تمہیں ذرا تاخیر ہو گئی
اب میرا انتظار کرو، میں نشے میں ہوں
میں تم کو چاہتا ہوں، تمہیں پر نگاہ ہے
ایسے میں اعتبار کرو، میں نشے میں ہوں

صراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں

صراحی جام سے ٹکرائیے، برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دُہرائیے، برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
 ذرا ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
کسی پُرنور تمہت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
 کہیں سے مَہ وشوں کو لائیے، برسات کے دن ہیں

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے

ساقی! شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں
تھم تھم کے مے پلا کہ طبیعت اداس ہے
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے

جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے

جینے میں یوں تو کون سی جینے کی بات ہے
 پھر بھی عجیب چیز، فریبِ حیات ہے
کیا کر گیا ہے آ کے تُو اک مرتبہ یہاں
تیرے بغیر گھر میں نہ دن ہے نہ رات ہے
اے دل میں آنے والے، مبارک ترا قدم
ڈرتا ہوں میں یہ انجمنِ سانحات ہے

مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا

مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب اُلٹا
کہ پڑا ہے آج خُم میں قدحِ شراب اُلٹا
عجب اُلٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
کبھی بات کی جو سیدھی، تو مِلا جواب اُلٹا
چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل، یہ مِلا عذاب اُلٹا

کیسی ہی کیوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں

کیسی ہی کیوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں
جب کھِلکھلا کے ہنس دو، باہم صفائیاں ہوں
کیوں کر نہ گدگداہٹ ہاتھوں میں اُس کے اُٹھے
وہ گوری گوری رانیں جس نے دبائیاں ہوں
جی چاہتا ہے بولیں پر بولتے نہیں ہیں
ہوویں اگر تو باہم ایسی رکھائیاں ہوں

چشم و ادا و غمزہ شوخی و ناز پانچوں

چشم و ادا و غمزہ، شوخی و ناز، پانچوں
دُشمن ہیں میرے جی کے، بندہ نواز، پانچوں
کیا رنگِ زرد و گریہ، کیا ضعف و درد و افغاں
افشا کریں ہیں مِل کر، میرا یہ راز، پانچوں
نارِ فراق سے ہے، جوں شمع، دِل کو ہر شب
احراق و داغ و گریہ، سوز و گداز، پانچوں

عشق میں مقصود اصلی کو مقدم کیجیے

عشق میں مقصودِ اصلی کو مقدم کیجئے
شرح و تفصیلات پر یعنی نظر کم کیجئے
ہر طرف بے فائدہ کیوں سعئِ پیہم کیجئے
تشنگی سے اپنے  پیدا بحرِ اعظم کیجئے
عشق کی عظمت نہ ہرگز جیتے جی کم کیجئے
جان دے دیجے، مگر آنکھیں نہ پُرنَم کیجئے

حیرت عشق نہیں شوق جنوں گوش نہیں

حیرتِ عشق نہیں، شوقِ جنوں گوش نہیں
 بے حجابانہ چلے آؤ، مجھے ہوش نہیں
 رِند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
 میکدہ ساز ہوں میں میکدہ بردوش نہیں
 کہہ گئی کان میں آ کر تیرے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جیسے ہوش نہیں

سرسوں پھول بنی اور کوئل کوکت راگ ملھار

سرسوں پھول بنی اور کوئل کوکت راگ ملھار
ناریاں جھولے ڈال کے دیکھت ہیں ساون کی دھار
جَل بِن ماہی جیسی بِرہن تھی کاٹت بَن واس
اب تو ہریالی ہووت ہے مَن کی اِک اِک آس
بدلی کی ڈولی کی چلمن جب اٹھ جاوت ہے
امبر بھی ایسے جلوؤں کی تاب نہ لاوت ہے

Wednesday 9 April 2014

میں سہوں کرب زندگی کب تک

میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سُونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک

غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں

غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کربِ غمِ شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہرِ بے اثر ہے اسے پی چکا ہوں میں

اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے

اے کُوئے یار تیرے زمانے گزر گئے 
جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے 
اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے 
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں، ہم تو مر گئے 
اب کیا کہوں کے سارا محلہ ہے شرمسار 
میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھی گئے

نہ میرے لیے حسن میں اب کشش ہے

نہ میرے لیے حُسن میں اب کشش ہے، نہ کچھ کیف ہے رندی و سرکشی میں
یہ کیا ہو گیا میری دیوانگی کو، یہ کیا انقلاب آ گیا زندگی میں
بہت بے وفا ہیں وفا کرنے والے، یہ تم کن خیالوں میں کھوئی ہوئی ہو
کسے فرصتِ کاروبارِ وفا ہے، کسے دِل کا احساس ہے بے حسی میں
بھلا دو جنوں کے وہ سارے فسانے، وہ اپنا ترنم، وہ میرے ترانے
جنوں کے لیے کچھ رعایت نہیں ہے، نئے عہد کی سنگدل آگہی میں

اے تغیرِ زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے

اے تغیّرِ زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے
یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا
ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے

محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دَم توڑ دیا 
 ساز خاموش ہیں نغمات نے دَم توڑ دیا 
 ہر مسرت، غمِ دیروز کا عنوان بنی 
 وقت کی گود میں لمحات نے دَم توڑ دیا 
 اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
 کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑ دیا 

Sunday 6 April 2014

اتار لفظوں کا اک ذخیرہ غزل کو تازہ خیال دے دے

اتار لفظوں کا اک ذخیرہ، غزل کو تازہ خیال دے دے
خود اپنی شہرت پہ رشک آئے سخن میں ایسا کمال دے دے
ستارے تسخیر کرنے والا پڑوسیوں سے بھی بے خبر ہے
اگر یہی ہے عروج آدمؑ تو پھر ہمیں تُو زوال دے دے
تِری طرف سے جواب آئے نہ آئے پروا نہیں ہے اس کی
یہی بہت ہے کہ ہم کو یارب! تُو صرف اذنِ سوال دے دے

محبت کا اثر ہو گا غلط فہمی میں مت رہنا

محبت کا اثر ہو گا، غلط فہمی میں مت رہنا
وہ بدلے گا چلن اپنا، غلط فہمی میں مت رہنا
تسلی بھی اسے دینا، یہ ممکن ہے میں لوٹ آؤں
مگر یہ بھی اسے کہنا، غلط فہمی میں مت رہنا
تمہارا تھا، تمہارا ہوں، تمہارا ہی رہوں گا میں
میرے بارے میں اس درجہ، غط فہمی میں مت رہنا

تجھے زندگی کا شعور تھا ترا کیا بنا

تجھے زندگی کا شعور تھا، تِرا کیا بنا
تُو خموش کیوں ہے مجھے بتا، ترا کیا بنا
وہ نصیب سے تِری جنگ تھی، مِری بھی تو تھی
میں تو کامیاب نہ ہو سکا، تِرا کیا بنا
نئی منزلوں کی تلاش تھی، سو بچھڑ گئے
میں بچھڑ کے تجھ سے بھٹک گیا، تِرا کیا بنا

موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں

موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا تِرے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے، تُو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
مجھ میں اور اس میں صرف مقدر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں

بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں

بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں، یہ اک عام خبر ہے مجھ میں
اک عجب آمد و شُد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ، برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ہے مری عمر، جو حیران تماشائی ہے
اور اک لمحہ ہے جو زیر و زبر ہے مجھ میں

آؤ کسی اداس ستارے کے پاس جائیں

آؤ، کسی اداس ستارے کے پاس جائیں
دریائے آسماں کے شکارے کے پاس جائیں
اس سے بھی پوچھ لیں کہ گزرتی ہے کس طرح
یارو کبھی کسی کے سہارے کے پاس جائیں
مٹھی میں لے کے دل میں بٹھا لیں جو ہو سکے
اک ناچتی کِرن کے شرارے کے پاس جائیں

کبھی وہ آنکھ کبھی فیصلہ بدلتا ہے

کبھی وہ آنکھ، کبھی فیصلہ بدلتا ہے
فقیہِ شہر سفینہ بدست چلتا ہے
وہ میری آنکھیں جنہیں تم نے طاق پر رکھا
انہی میں منزلِ جاں کا سراغ ملتا ہے
اب اگلے موڑ کی وحشت سے دل نہیں ہارو
زوالِ شام سے منظر نیا نکلتا ہے

نام دینا اسے مشکل ہے بہت رہبر کا

نام دینا اسے مشکل ہے بہت رہبر کا

مثل صیاد جو دشمن ہوا بال و پر کا

دشت گردی میں سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی

ڈررہا ہوں کہ پتہ بھول نہ جاؤں گھر کا

سنگ در میں وہ کشش ہے کہ جبیں سائی سے

غیر ممکن ہے کسی طرح اٹھانا سر کا

کوئی افواہ سنا جھوٹی خبر دے مجھ کو

کوئی افواہ سنا جھوٹی خبر دے مجھ کو

یاس کی رات میں امیدِ سحر دے مجھ کو

کیوں ملا دیتا ہے مٹی میں محبت کے گہر

چند آنسو کبھی اے دیدۂ تر دے مجھ کو

آئینہ سامنے رکھا ہے اندھیرے جیسا

خود کو پہچان سکوں ایسی نظر دے مجھ کو

ستم کو اب کرم کہنا خموشی کو بیاں لکھنا

ستم کو اب کرم کہنا، خموشی کو بیاں لکھنا
ہمیں بھی آ گیا آخر حقیقت کو گماں لکھنا
لہو مجھ کو رلاتی ہے یہ عادت اس کی برسوں سے
محبت کو سزا کہنا، وفا کو داستاں لکھنا
شکایت بے ارادہ تھی، اِسے آشفتگی کہہ لو
وگرنہ ہم نے چاہا تھا تمہیں بھی مہرباں لکھنا

غم کی تشہیر نہ کر خود کو تماشا نہ بنا

غم کی تشہیر نہ کر، خود کو تماشا نہ بنا
دیکھ، اس دردِ محبت کو فسانہ نہ بنا
بے ثمر ہی سہی، شادابئ جاں کا ہیں سبب
خواہشیں مار کے یوں ذات کو صحرا نہ بنا
وقت بدلے گا، بدلتا ہے، کہاں رُکتا ہے
حوصلے ہار کے یوں زیست کو ایذا نہ بنا

کوئی سمجھاؤ دریا کی روانی کاٹتی ہے

کوئی سمجھاؤ، دریا کی روانی کاٹتی ہے
کہ میرے سانس کو، تشنہ دہانی کاٹتی ہے
میں باہر تو بہت بہتر ہوں، پر اندر ہی اندر
مجھے کوئی بلائے ناگہانی کاٹتی ہے
میں دریا ہوں، مگر کتنا ستایا جا رہا ہوں
کہ بستی روز آ کے میرا پانی کاٹتی ہے

گھٹن غبار کو تسخیر کرنے والا تھا

گھٹن غبار کو تسخیر کرنے والا تھا
میں اب ہواؤں کو زنجیر کرنے والا تھا
اُسی کو خواب میں دیکھا تھا رات بھر میں نے
جو میرے خواب کی تعبیر کرنے والا تھا
ہنر کے آہنی سانچے میں ڈھل کر اب کے
وہ میرے عیب کی تشہیر کرنے والا تھا

مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک

مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک
دن وہ ظالم ہے کہ ڈھاتا ہے عذاب ایک سے ایک
میری خاموشی سے قائم ہے سوالوں کا بھرم
بولوں تو مجھ کو بھی آتا ہے جواب ایک سے ایک
چھین لی وصل کے دانوں نے فضا فرقت کی
ورنہ پرواز میں رہتے تھے عقاب ایک سے ایک

دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا

دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا
سب ادھر ہی جا رہے ہیں دشت میں میلہ لگے گا
تیر بن کر خیر سے ہر دل پہ جب سیدھا لگے گا
شعر میرا دشمنوں کو بھی بہت اچھا لگے گا
خیر، حشرِ آرزو پر تو تمہارا بس نہیں ہے
آرزو تو کر لو یارو! آرزو میں کیا لگے گا

وہ بھی اٹھا کے سنگ ملامت اداس تھا

وہ بھی اُٹھا کے سنگِ ملامت اُداس تھا
ہم کو بھی دوستی کے تقدس کا پاس تھا
ٹھوکر لگی تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
اک سنگِ رہگزارِ وفا غرقِ یاس تھا
پگھلا دیا تھا روح کو دوری کی آنچ نے
تیرے دُکھوں کا رنگ بدن کا لباس تھا

تم مرا دکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے

تم مِرا دُکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے
دشت کو ابر تو پیاسا نہیں رہنے دیتے
واہمے نت نئی اشکال بنا لیتے ہیں
ورقِ دل کو بھی سادہ نہیں رہنے دیتے
کتنے بے رحم ہیں یہ ہاتھ کہ فصلِ گل میں
شجر سبز پہ پتا نہیں رہنے دیتے

حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے

حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے
دل سا انگارہ تو پہلے ہی بُجھا رکھا ہے
اے مِرے شہر کی بے رحم زمیں کچھ تو بتا
تُو نے ہر موڑ پہ کیوں سنگِ جفا رکھا ہے
اک تِرا دُکھ ہو تو چہرے پہ بکھیرا جائے
کتنے غم ہیں جنہیں سینے سے لگا رکھا ہے

نہ سہی پیار حقارت سے کبھی بول کے دیکھ

نہ سہی پیار، حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
کوئی تو زہر مِری رُوح میں تُو گھول کے دیکھ
میری آواز کہاں تک تِری دیوار بنے
شدتِ کرب سے تو بھی تو کبھی بول کے دیکھ
اپنی تنہائی کے اس گھور اندھیرے سے نکل
کیا ہے باہر کی فضا آنکھ ذرا کھول کے دیکھ

دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو

دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو
یہ جو طوفاں سا امڈ آیا ہے، رک جانے دو
مدتوں بعد تو پلٹا ہے بدل کر ملبوس
گھر کا دروازہ کھلا رکھو، اسے آنے دو
وقت بیمار مسافر ہے، گزر جائے گا
رائیگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو

کیوں لئے پھرتی ہے اے تیز ہوا رہنے دے

کیوں لئے پھرتی ہے اے تیز ہوا! رہنے دے
گرد ہوں میں، مجھے راہوں میں‌ پڑا رہنے دے
پھر جلوں گا تو اندھیروں کو بھی زحمت ہو گی
بجھ گیا ہوں تو مجھے یوں ہی بجھا رہنے دے
دھوپ ہوں شب کے نشیبوں میں اتر جاؤں گا
بس ذرا دیر پہاڑوں پہ بچھا رہنے دے

کب تلک یوں ہی مجھے خاک بہ سر چاہتی ہے

کب تلک یوں ہی مجھے خاک بہ سر چاہتی ہے
اے تھکن! پوچھ تو کیا راہ گزر چاہتی ہے
پہلے کم پڑتی تھی اک دشت کی وسعت بھی اسے
اب یہ وحشت، در و دیوار میں گھر چاہتی ہے
کوئی امید کی صورت نہیں باقی دل میں
کوئی امید مگر دل میں بسر چاہتی ہے

منزل کی کشش لطف سفر اپنی جگہ ہے

منزل کی کشش، لطفِ سفر اپنی جگہ ہے
اور راہ میں لٹ جانے کا ڈر اپنی جگہ ہے
پردیس تو پردیس ہے، گھر اپنی جگہ ہے
شب لاکھ منور ہو، سحر اپنی جگہ ہے
ایسا نہیں احساس سے عاری ہوں سبھی دل
مجبورئ حالات مگر اپنی جگہ ہے

Saturday 5 April 2014

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں آہ و بکا رسمِ کُہن ہے، لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے
یوں توتم روشنئ قلب و نظر ہو، لیکن
آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رَستہ بول رہا ہے
آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے

جرم انکار کی سزا ہی دے

جرم انکار کی سزا ہی دے 
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے 
شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب 
جو تیرا ناز کم نگاہی دے 
تُو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری 
مجھ کو اک اشک صبحِ گاہی دے 

روشن کیے جو دل نے کبھی دن ڈھلے چراغ

روشن کیے جو دل نے کبھی دن ڈھلے چراغ
اپنے اجاڑ گھر میں لگے کیا بھلے چراغ
شاید میرا وجود ہی سورج تھا شہر میں
میں بجھ گیا تو کتنے گھروں میں جلے چراغ
دریا کی تہ میں کتنے ستاروں کا عکس تھا
پانی کے ساتھ ساتھ کہاں تک چلے چراغ

میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی

میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی
سنا ہے اس کی زباں بھی ہوئی ہے پتھر کی
رواں ہے قُلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی سیکھ
کہ خوش نما تو بہت ہے فصیل باہر کی
اجاڑ پیڑ گئے موسموں کو روتے ہیں
ہر آبجو کو ہوس پی گئی سمندر کی

پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گم یہاں

پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گُم یہاں
راہِ گریز پائیِ صر صر ہے گم یہاں
وسعت کہاں کہ سمت وجہت پرورش کریں
بالیں کہاں سے لائیں کہ بستر ہے گم یہاں
ہے ذات کا زخم کہ جس کا شگافِ رنگ
سینے سے دل تلک ہے پہ خنجر ہے گم یہاں

بزم سے جب نگار اٹھتا ہے

بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے
تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے

ہم پیاسوں ‌کے مے خانے میں‌ یوں ‌جام چلے ہے

ہم پیاسوں ‌کے مے خانے میں‌ یوں ‌جام چلے ہے
آنکھوں‌ سے چھلک جائے ہے جب شام ڈھلے ہے
کیا پوچھو ہو ہم خانہ خرابوں کی کہانی
مٹی کا دِیا🪔 رُخ ‌پہ ہواؤں ‌کے جلے ہے
تھک جائیں ‌تو سو جائیں ‌کسی پیڑ‌ کے نیچے
ہم خانہ بدوشوں کا یونہی کام چلے ہے

تم نے دل کی بات کہہ دی آج یہ اچھا ہوا

تم نے دل کی بات کہہ دی آج یہ اچھا ہوا
ہم تمہیں اپنا سمجھتے تھے بڑا دھوکا ہوا
جب بھی ہم نے کچھ کہا اس کا اثر الٹا ہوا
آپ شاید بھولتے ہیں، بارہا ایسا ہوا
اور ہم کرتے بھی کیا، ترکِ‌ تعلق کے سوا
ہم کو خود حیرت ہے، یہ بیٹھے بٹھائے کیا ہوا

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دوا کرو نہ دعا کرو

یہ مِری انا کی شکست ہے، نہ دوا کرو، نہ دعا کرو
جو کرو تو بس یہ کرم کرو مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو ایک ترکشِ وقت ہے ابھی اُس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آ لگے میرے زخمِ دل پہ نہ یوں ہنسو
نہ میں کوہ کن ہوں، نہ قیس ہوں، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے، جو تمہیں یقینِ وفا نہ ہو

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی

متاعِ غیر

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

Tuesday 1 April 2014

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں ناخدا کے ساتھ
کہتے ہیں جس کو حشر، اگر ہے، تو لازماً
اٹھے گا وہ بھی آپ کی آوازِ پا کے ساتھ
اے قلبِ نامراد! مِرا مشورہ یہ ہے
اِک دن تو آپ خود بھی چلا جا دُعا کے ساتھ

جنوں کا ایسا طریقہ بنے تو بات بنے

جنوں کا ایسا طریقہ بنے تو بات بنے
کہ تیرے ساتھ ہی قصہ بنے تو بات بنے
وہ شہر بھر کو فسانے سُناتا پِھرتا ہے
ہمارے سامنے سچا بنے تو بات بنے
تمہارے چاک پہ پُتلے خطا کے بنتے ہیں
تمہارے چاک پہ بندہ بنے تو بات بنے

شام سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح

شام سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح
ہم بھی کبھی ملے تھے تضادات کی طرح​
تُو نے تو اپنے ساتھ مجھے بھی بدل دیا
میں تو نہیں تھا تیرے خیالات کی طرح
یہ پیڑ بھی عجیب ہیں، ہنستے نہیں کبھی
پھولوں کو ضبط کرتے ہیں جذبات کی طرح

یہ شہر روز ہی بستا ہے روز اجڑتا ہے

یہ شہر روز ہی بستا ہے روز اجڑتا ہے
مگر غنیم کو کیا اس سے فرق پڑتا ہے
خدا نے ہم میں کیا قدر مشترک رکھی
کہ میری آنکھ تِرے لبوں سے پھول جَھڑتا ہے
ہمارے ساتھ محبت کا جو سلوک بھی ہو
سوال یہ ہے کے دنیا کا کیا بگڑتا ہے

ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے

ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
تجھ سے باز آئیں تو پھر خود سے ٹھنی ہوتی ہے
کچھ تو لے بیٹھی ہے اپنی شکستہ پائی
اور کچھ راہ میں چھاؤں بھی گھنی ہوتی ہے
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے