Friday 11 April 2014

صیاد کی مرضی ہے کہ اب گل کی ہوس میں

صیاد کی مرضی ہے کہ اب گُل کی ہوس میں
نالے نہ کریں مُرغ گرفتارِ قفس میں
ایک وقت میں تھی نالۂ مجنوں سے ہم آواز
اب تک ہے اثر اس لیے آواز جَرَس میں
اِس ملنے سے ہو دل کو بھلا کیونکہ تسلی
ایک بار کہیں چھپ کے ملے لاکھ برس میں
رسمیں ہیں عجب مُلک میں خوباں کہ یہ ہمدم
سُم دیتے ہیں اُلفت میں جسے چاہے ہیں رس میں
دم رُکتا ہوا آتا ہے لب تک مِرے غم سے
عُقدے ترے ہیں بسکہ مِرے تارِ نفس میں
دل اپنا انہیں باتوں سے اُٹھ جاتا ہے تجھ سے
جا بیٹھے ہے تو مل کہ جو ہر ناکس و کس میں
وہ اور زمانہ تھا کہ خُوباں میں تھی اُلفت
ایسا نظر آتا نہیں اب ایک بھی دس میں
پھر کل کے تو وعدے کی قسم کھانے لگا آج
کیا بھول گئیں اپنی تجھے کل کی وہ قسمیں
اشکوں سے نہ ہو کیونکہ حسنؔ رازِ دل افشا
پانی کے چھڑکنے سے ہی بُو ہوتی ہے خَس میں

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment