Saturday 26 April 2014

یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری

یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری
جہان آب و گل پر تھی نگہبانی ہماری
مہکتا تھا گھنے پیڑوں سے ویرانہ ہمارا
دمکتی تھی دعا کی لَو سے پیشانی ہماری
ہمارے جسم کے ٹکڑے ہوئے، روندے گئے ہم
مگر زندہ رہی آنکھوں میں حیرانی ہماری
ہم اس خاطر تِری تصویر کا حصہ نہیں تھے
تِرے منظر میں آ جائے نہ ویرانی ہماری
بہت لمبے سفر کی گرد چہروں پر پڑی تھی
کسی نے دشت میں صورت نہ پہچانی ہماری
کسی نے کب بھلا جانا، ہمارا کربِ وحشت
کسی نے کب بھلا جانی، پریشانی ہماری

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment