لوگوں سے کچھ بھید چُھپانے پڑتے ہیں
درد کے کس کس دیس ٹھکانے پڑتے ہیں
سوئے رہنے میں بھی حکمت ہے پیارے
جاگو تو پھر خواب سُلانے پڑتے ہیں
البم کھول کے دیکھا تو احساس ہوا
دو اک دن کی بات جو ہوتی، مل جاتے
ہم دونوں کے بیچ زمانے پڑتے ہیں
اِس میں بھی نُقصان کا اندیشہ ہے جناب
عشق میں بھی آداب سکھانے پڑتے ہیں
بعد میں موسم کر ڈالے پامال، مگر
آنکھوں میں کچھ خواب اُگانے پڑتے ہیں
عشق کی منزل پر فائز مجنوں ہی سہی
رستے میں کچھ لوگ سیانے پڑتے ہیں
ورنہ تیشہ لے کر کون چلے گھر سے
راہِ وفا میں ہوش گنوانے پڑتے ہیں
شیشے کا پندار بچانا ہے جو بتولؔ
مٹی کے آثار مٹانے پڑتے ہیں
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment