مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے
نگاہ سے بھی بدن پر نشان پڑتا ہے
حرم کا عزم پنپتا نظر نہیں اتا
کہ راستے میں صنم کا مکان پڑتا ہے
فقیہِ شہر کو جب کوئی مشغلہ نہ ملے
تو نیک بخت گلے میرے آن پڑتا ہے
ہمیں خبر ہے حصولِ مراد سے پہلے
خراب ہونا بھی اے مہربان پڑتا ہے
عدمؔ نشیمنِ دل بدگمان نہ ہو جائے
نہ جانے، کب کسی بجلی کا دھیان پڑتا ہے
عبدالحمید عدم
نگاہ سے بھی بدن پر نشان پڑتا ہے
حرم کا عزم پنپتا نظر نہیں اتا
کہ راستے میں صنم کا مکان پڑتا ہے
فقیہِ شہر کو جب کوئی مشغلہ نہ ملے
تو نیک بخت گلے میرے آن پڑتا ہے
ہمیں خبر ہے حصولِ مراد سے پہلے
خراب ہونا بھی اے مہربان پڑتا ہے
عدمؔ نشیمنِ دل بدگمان نہ ہو جائے
نہ جانے، کب کسی بجلی کا دھیان پڑتا ہے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment