اولیں چاند نے کیا بات سُجھائی مجھ کو
یاد آئی تری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوانِ طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
انہی آنکھوں نے دکھائے کئی بھرپور جمال
انہیں آنکھوں نے شبِ ہجر دکھائی مجھ کو
سائے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی دل ڈوب اِدھر جاتا تھا
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
ناصر کاظمی
یاد آئی تری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوانِ طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
انہی آنکھوں نے دکھائے کئی بھرپور جمال
انہیں آنکھوں نے شبِ ہجر دکھائی مجھ کو
سائے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی دل ڈوب اِدھر جاتا تھا
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment