یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا
ستم تو یہ ہے کہ کہتا ہے، جا، نہیں کرتا
طلوعِ عارض و لب تک میں صبر کرتا ہوں
سو منہ اندھیرے غزل اِبتدا نہیں کرتا
یہ شہر ایسے حریصوں کا شہر ہے کہ یہاں
زباں کا تلخ ہے لیکن وہ دل کا اچھا ہے
سو اُس کی بات پہ میں دِل بُرا نہیں کرتا
بس ایک مصرعۂ تر کی تلاش ہے مجھ کو
میں سعئ چشمۂ آبِ بقا نہیں کرتا
شہیدِ عشق کی سرشاریاں ملاحظہ ہوں
گلا کٹا کے بھی خُوش ہے، گِلہ نہیں کرتا
دِل ایسا پھول ہے فارسؔ کہ جو مہکنے کو
کبھی بھی منتِ بادِ صبا نہیں کرتا
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment