Wednesday 23 April 2014

یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا

یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا 
ستم تو یہ ہے کہ کہتا ہے، جا، نہیں کرتا
طلوعِ عارض و لب تک میں صبر کرتا ہوں
سو منہ اندھیرے غزل اِبتدا نہیں کرتا 
یہ شہر ایسے حریصوں کا شہر ہے کہ یہاں
فقیر بھیک لیے بِن دُعا نہیں کرتا
زباں کا تلخ ہے لیکن وہ دل کا اچھا ہے 
سو اُس کی بات پہ میں دِل بُرا نہیں کرتا
بس ایک مصرعۂ تر کی تلاش ہے مجھ کو
میں سعئ چشمۂ آبِ بقا نہیں کرتا
شہیدِ عشق کی سرشاریاں ملاحظہ ہوں
گلا کٹا کے بھی خُوش ہے، گِلہ نہیں کرتا
دِل ایسا پھول ہے فارسؔ کہ جو مہکنے کو
کبھی بھی منتِ بادِ صبا نہیں کرتا 

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment