Wednesday 16 April 2014

کچھ یادگار شہر ستمگر ہی لے چلیں

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کہ چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تُو کہاں
آ، اے شبِ فراق! تجھے گھر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment