Wednesday, 16 April 2014

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے، نہ گئے
کیا پزیرائی ہو اُن کی جو بلائے نہ گئے
اب وہ نیندوں کا اجڑتا تو نہیں دیکھیں گے
وہی اچھے تھے جنہیں خواب دکھائے نہ گئے
رات بھر میں نے کھلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چرائے نہ گئے
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے
تیز بارش ہو، گھنا پیڑ ہو، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سورج سے بجھائے نہ گئے

پروین شاکر

2 comments: