Wednesday, 16 April 2014

صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں

صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں​
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں ​
یہ شاخِ گل ہے، آئینِ نمو سے آپ واقف ہے ​
سمجھتی ہے، کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں​
کبھی تیری، کبھی دستِ جنوں کی بات چلتی ہے​
یہ افسانے تو زُلفِ خم بہ خم ہوتے ہی رہتے ہیں ​
توّجہ اُن کی، اب اے ساکنانِ شہر! تم پر ہے​
ہم ایسوں پر، بہت اُن کے کرم ہوتے ہی رہتے ہیں​
تِرے بندِ قبا سے رشتۂ انفاسِ دوراں تک ​
کچھ عقدے ناخنوں کو بھی بہم ہوتے ہی رہتے ہیں ​
ہجومِ لالہ و نسریں ہو یا لب ہائے شیریں ہو
مِری موجِ نفس سے تازہ دَم ہوتے ہی رہتے ہیں ​
مِرا چاکِ گریباں چاکِ دل سے مِلنے والا ہے ​
مگر یہ حادثے بھی بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں ​

عزیز حامد مدنی ​

No comments:

Post a Comment