زندگی کو سنبھال کے رکھنا
تلخیوں کو نکال کے رکھنا
یہ تو اچھا نہیں تمہارے لئے
دل میں ہر غم کو پال کے رکھنا
ساری دنیا کے روبرو اپنے
تجربوں کو کھنگال کے رکھنا
اپنی ہستی بکھر نہ جائے کہیں
خود کو سانچے میں ڈھال کے رکھنا
ماں کی لوری کو یاد رکھنا تم
لَے کو کانوں میں ڈال کے رکھنا
بھوکے بچوں کو تم سلانے تک
صرف پانی ابال کے رکھنا
گھر کے اندر ہوں یا کہ آنگن میں
سر پہ آنچل کو ڈال کے رکھنا
لوگ عزت سے کھیلتے ہیں یہاں
اپنی پگڑی سنبھال کے رکھنا
کچھ بھی ہو جائے عمر بھر اے ضیاؔ
گھر کو اپنے اُجال کے رکھنا
ضیا کرناٹکی
تلخیوں کو نکال کے رکھنا
یہ تو اچھا نہیں تمہارے لئے
دل میں ہر غم کو پال کے رکھنا
ساری دنیا کے روبرو اپنے
تجربوں کو کھنگال کے رکھنا
اپنی ہستی بکھر نہ جائے کہیں
خود کو سانچے میں ڈھال کے رکھنا
ماں کی لوری کو یاد رکھنا تم
لَے کو کانوں میں ڈال کے رکھنا
بھوکے بچوں کو تم سلانے تک
صرف پانی ابال کے رکھنا
گھر کے اندر ہوں یا کہ آنگن میں
سر پہ آنچل کو ڈال کے رکھنا
لوگ عزت سے کھیلتے ہیں یہاں
اپنی پگڑی سنبھال کے رکھنا
کچھ بھی ہو جائے عمر بھر اے ضیاؔ
گھر کو اپنے اُجال کے رکھنا
ضیا کرناٹکی
No comments:
Post a Comment