Monday 14 April 2014

زندگی کو سنبھال کے رکھنا

زندگی کو سنبھال کے رکھنا
تلخیوں کو نکال کے رکھنا
یہ تو اچھا نہیں تمہارے لئے
دل میں ہر غم کو پال کے رکھنا
ساری دنیا کے روبرو اپنے
تجربوں کو کھنگال کے رکھنا
اپنی ہستی بکھر نہ جائے کہیں
خود کو سانچے میں ڈھال کے رکھنا
ماں کی لوری کو یاد رکھنا تم
لَے کو کانوں میں ڈال کے رکھنا
بھوکے بچوں کو تم سلانے تک
صرف پانی ابال کے رکھنا
گھر کے اندر ہوں یا کہ آنگن میں
سر پہ آنچل کو ڈال کے رکھنا
لوگ عزت سے کھیلتے ہیں یہاں
اپنی پگڑی سنبھال کے رکھنا
کچھ بھی ہو جائے عمر بھر اے ضیاؔ
گھر کو اپنے اُجال کے رکھنا

ضیا کرناٹکی

No comments:

Post a Comment