Thursday 17 April 2014

جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے

جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے
کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے
اب اک ہجومِ شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نہ ملا، ہمسفر ہمارے ہوئے
کسی نے غم تو کسی نے مزاجِ غم بخشا
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو
اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے
وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے


احمد فراز

No comments:

Post a Comment