Friday 11 April 2014

تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مرے دوست

تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مِرے دوست
کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانہ مرے دوست
جانے کس کام میں مصروف رہا برسوں تک
یاد آیا ہی نہیں تجھ کو بھلانا مرے دوست
پوچھنا مت کہ یہ کیا حال بنا رکھا ہے
آئینہ بن کے مرا دل نہ دکھانا مرے دوست
اس ملاقات میں جو غیر ضروری ہو جائے
یاد رہتا ہے کسے ہاتھ ملانا مرے دوست
دیکھنا مجھ کو مگر میری پزیرائی کو
اپنی آنکھوں میں ستارے نہ سجانا مرے دوست
اب وہ تتلی ہے نہ وہ عمر تعاقب والی
میں نہ کہتا تھا، بہت دور نہ جانا مرے دوست
ہجر تقدیر میں لکھا تھا کہ مجبوری تھی
چھوڑ اِس بات سے کیا ملنا ملانا مرے دوست
تُو نے احسان کیا اپنا بنا کر مجھ کو
ورنہ میں کیا تھا، حقیقت نہ فسانہ مرے دوست
اِس کہانی میں کسے کون کہاں چھوڑ گیا
یاد آ جائے تو مجھ کو بھی بتانا مرے دوست
چھوڑ آیا ہوں ہواؤں کی نگہبانی میں
وہ سمندر، وہ جزیرہ، وہ خزانہ مرے دوست
ایسے رستوں پہ جو آپس میں کہیں ملتے ہوں
کیوں نہ اس موڑ سے ہو جائیں روانہ مرے دوست

فیصل عجمی

No comments:

Post a Comment