چمن کے غنچوں نے رنگ بدلا فلک کے تاروں نے ساتھ چھوڑا
میں جن سہاروں سے مطمئن تھا انہی سہاروں نے ساتھ چھوڑا
خود اہلِ کشتی کی سازشیں ہیں، کہ ناخدا کی نوازشیں ہیں
وہیں تلاطم کو ہوش آیا، جہاں کناروں نے ساتھ چھوڑا
نہ خُم سلامت نہ جام باقی، جُھکی جُھکی ہے نگاہِ ساقی
ہوا کا رُخ ہم بدل چکے تھے، بھنور کی زد سے نکل چکے تھے
کہاں امیدوں کو نیند آئی، کہاں سہاروں نے ساتھ چھوڑا
غمِ محبت کی داستاں بھی عجیب و دلچسپ داستاں ہے
نہ ہمنواؤں نے آنکھ بدلی، نہ رازداروں نے ساتھ چھوڑا
مِرے گناہِ نظر سے پہلے چمن چمن میری آبرو تھی
مجھے شعورِ جمال آیا تو گُلعذاروں نے ساتھ چھوڑا
مِرا مذاقِ جنوں سلامت، کہیں بھی تنہا نہیں رہوں گا
ہزار طوفان ساتھ دیں گے اگر کناروں نے ساتھ چھوڑا
مِری شبِ غم گزر رہی ہے یقینِ محکم کے ساتھ قابلؔ
وہیں سحر بھی طلوع ہو گی، جہاں ستاروں نے ساتھ چھوڑا
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment