Monday, 28 April 2014

عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی

عجیب رُت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں بھی اُداس تھا وہ بھی
کسی کے شہر میں کی گفتگو ہواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی 
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گمان تھا یہ بھی، قیاس تھا وہ بھی
کہاں کا اب غمِ دنیا، کہاں کا اب غمِ جاں
وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ بھی راس تھا وہ بھی
فرازؔ تیرے گریباں پہ کل جو ہنستا تھا
اسے ملے تو دریدہ لباس تھا وہ بھی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment