Saturday 26 April 2014

ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں

ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں
جہانِ ہست و بود میں کسی پہ کچھ کھلا نہیں
حضورِ خواب دیر تک، کھڑا رہا سویر تک
نشیبِ قلب و چشم سے گزر تِرا ہوا نہیں
نظر میں اک چراغ تھا، بدن میں ایک باغ تھا
چراغ و باغ ہو چکے، کوئی رہا؟ رہا نہیں
اجڑ گئیں حویلیاں، چلی گئیں سہیلیاں
دلا! تِری قبیل سے کوئی بھی اب بچا نہیں
ہوس کی رزم گاہ میں، بدن کی کارگاہ میں
وہ شور  تھا کہ دور تک کسی نے کچھ  سنا نہیں
نجانے کتنے یگ ڈھلے، نجانے کتنے دکھ پلے
گھروں میں ہانڈیوں تلے، کسی کو کچھ پتہ نہیں
وہ پیڑ جس کی چھاؤں میں، کٹی تھی عمر گاؤں میں
میں چوم چوم تھک گیا، مگر یہ دل بھرا نہیں

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment